میں پارلیمنٹ پر لعنت نہیں بھیجتا، جناب!


شیخ رشید احمد “بٹ” صاحب کا مسلسل منتخب ہوتے چلے جانا خود ان کے حلقے کے  عوام پر اک بھدا تبصرہ ہے۔ اس سے بھی بھدا تبصرہ ان نابغوں پر ہے جو موصوف کے پرانے، بہت پرانے ہینڈلرز رہے ہیں، اور اب بھی ہیں۔ شیخ صاحب اک پرانے پارلیمینٹیرین ہیں۔ ان کے انتخاب کو ان کے حلقے کی عوام پر اک بھدا تبصرہ کہنے کے باوجود میں اس بات کا دل سے احترام کرتا ہوں کہ محترم شیخ صاحب بھلے جیسے بھی منتخب ہوتے چلے آئے ہیں، وہی اپنے حلقے کے منتخب شدہ عوامی نمائندے ہیں۔ شیخ صاحب کیسے عوامی نمائندے ہیں، اس کا فیصلہ بھی ان کے حلقے کے عوام ہی کریں گے۔ میری قیادت میں کھڑے ہو کر ان کی لال حویلی کے سامنے نعرے مارتے ہوئے چار لوگ نہیں جو لال حویلی اور بھابھڑا بازار سے ملحقہ ایک آدھ گلی کو بلاک کر کے ان کے استعفے پر مصر ہوں۔ یہی اس پارلیمانی نظام کی خوبصورتی ہے کہ جس کی ماں، پارلیمنٹ پر شیخ رشید احمد بٹ صاحب نے کل ایک دفعہ نہیں، چار مرتبہ لعنت بھیجی۔

ان دنوں کی بات ہے جب شیخ صاحب سیاہ رنگ کی بُلٹ پروف مرسیڈیز جیپ اور اک سکواڈ کار کے ساتھ پھرا کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب راولپنڈی کے اک مشہور و معروف پِیر ان کی اس وقت کی “اصلی تے وڈی سرکار” پرویز مشرف صاحب سے صلح کروا چکے تھے اور شیخ صاحب کا ستارہ پھر سے عروج کی جانب رواں دواں تھا۔ ایک محفل میں شیخ صاحب نے گِلہ فرمایا تھا کہ “اب تو میری صلح بھی ہو گئی ہے، مگر مجھ سے بات چیت نچلے درجے کے اہلکار کرتے ہیں۔” محترمی کی زبان، گفتار، چھلانگیں اور آنیاں جانیاں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اہلکار صاحب کا درجہ اب بلند ہو گیا ہے۔

شیخ صاحب، بہت مبارک ہو جناب۔

دوسری جانب ہمارے مشہور کرکٹر، جناب عمران خان نیازی صاحب ہیں۔ محترمی نفسیات کے موضوع پر اک بہت دلچسپ اور معلومات سے بھرا مطالعہ فراہم کرتے ہیں۔ ان کی اٹھان 1997 میں اس وقت شروع ہوئی جب اپنے وقت کے عظیم دانشور، جناب حمید گل مرحوم صاحب نے خود کاشتہ نظریہ پاکستان کے خود ساختہ علمبردار اک اخبار میں اپنے کالمز کی اک سیریز میں “نرم انقلاب” کی اصطلاح گھڑی۔

اس وقت اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ون، سروس روڈ ویسٹ، پر موجود اک مرحوم انکل کے گھر سیاسی، انقلابی و روحانی محافل کے پیچ و اسرار سلجھاتے ہوئے اس نرم انقلاب اور جنابِ محترم عمران نیازی صاحب کی جماعت کے بنیادی خیال نے جنم لیا تھا۔ اس انقلابی جماعت کی طرح ڈالی گئی تو پاکستان میں اس وقت کے تمام مڈل اور اپر مڈل کلاس لوگوں نے کہ جو عوامی سطح پر دانشور جانے اور مانے جاتے تھے، اس جماعت میں جوق در جوق شمولیت حاصل کی۔ بعد میں سب کے سب بھاگے، کچھ اب بھی مگر الیکٹریفائنگ میڈیا کی سکرینز پر بیٹھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل “نیازی معجون” میں ہی موجود ہے۔ میں اصرار کرتا ہوں کہ نہیں ہے، اور اسکا ٹوکن ٹیسٹ، حال ہی میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں ہونے والے پچیس ہزار لوگوں کا ولیمہ ہے جو سدا سے طاقت کے وفادار، ملتان کے اک پیر گھرانے کے چشم و چراغ نے مبلغ دس ہزار روپے میں کروایا ہے۔ مجھ جیسے تو دس ہزار روپے میں یونیورسٹی میں چائے کا اک فنکشن نہ کر سکیں۔

یہ وہی ریاستی ذرائع اور طاقت کے غلط استعمال کی روایت ہے جو ہمارے طاقتور طبقات میں ازل سے موجود ہے، ابد تک موجود بھی رہے گی، ہاں مگر الیکٹریفائنگ میڈیا کے مسلسل پروپیگنڈے نے 2011 سے یہ مسلسل ثابت کیا ہے کہ عمران نیازی صاحب کی جماعت پاکستان کی واحد شفاف اور انقلابی جماعت ہے۔ ہمارے لوگ بالخصوص نوجوان، جو Human Conditioning کے معاملات کو گہرائی میں جا کر نہیں سمجھتے، بہت خوشی سے اسی دھکے میں، دھکے کھائے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں مبارک ہو۔

عمران نیازی صاحب نے بھی کل پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہی پارلیمنٹ آپ کے صوبے، خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی ماں ہے۔ اسی پارلیمنٹ نے وہ قانون بنایا اور سلجھایا ہے جس کے تحت آپ کے صوبے کی صوبائی اسمبلی کی تشکیل ہوتی ہے اور اس کے معاملات چلتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ انہیں یاد کروانا ہے کہ جناب نیازی صاحب، آپ بھی اسی پارلیمان کا حصہ ہیں کہ جس کے ہونے والے اجلاسوں میں آپ نے کُل دو مرتبہ شرکت کی، مگر تنخواہ آپ نے ایک مہینے کی بھی نہیں چھوڑی۔ سال 2017 میں آپ اسمبلی میں ایک بار بھی نہیں آئے، مگر رکن قومی اسمبلی ہونے کے ناطے سے آپ ریاست کے ان تمام فوائد کے حق دار ہیں، جو آپ کو اسی پارلیمنٹ کا استحقاق عطا کرتا ہے۔

یہ جمہوریت کی ہی خوبی ہےکہ جس پارلیمنٹ کو آپ دھرنا دے کر توڑنے پر مصر تھے اور نام نہاد استعفے بھی جمع کروا دیے تھے، جب آپ اس پارلیمنٹ میں واپس گئے تو آپ کے سمیت، آپ کے تمام ارکان اسمبلی نے اسی ایوان سے اپنی اپنی تنخواہیں، تمام واجبات کے ساتھ بھرپور طریقے سے حاصل کیں، اور یہ کام کرتے ہوئے جمہوریت کے ماتھے پر اک شکن تک نہ آئی۔ جمہوریت کا سینہ، دل اور ذہن بہت کشادہ ہوتے ہیں، اور یہ بھی اسی پارلیمنٹ کی ہی دین ہیں جس پر آپ مسلسل لعنت بھیجتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر اس پارلیمنٹ پر لعنت ہے تو جناب، اس لعنت کا سلسلہ تو آپ کی صوبائی اسمبلی تک بھی جا پہنچتا ہے کہ وہ بھی اسی “ملعون ماں” کی بیٹی ہے۔

شیخ و نیازی کو یہ خبر ہو کہ آپ بھلے اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے رہیں، میرا اسی پارلیمنٹ پر بھرپور سیاسی ایمان ہے۔ مجھے، بحثیت ایک شہری، اس پارلیمنٹ پر شاید آپ سے بڑھ کر تحفظات ہوں گے، مگر میرا، میری ریاست کے ساتھ سیاسی تعلق صرف اور صرف اسی پارلیمنٹ کا مرہون منت ہے۔ میں اپنی زندگی میں دو مارشل لا دیکھ چکا ہوں اور ٹکٹکیوں پر کوڑے کھاتے پاکستانی شہریوں کی چیخوں اور کراچی میں گری لاشوں پر، اسلام آباد کے اک کنٹینر پر کھڑے ہو کر ہوا میں مکے لہرا کر ناچتے اک ڈکٹیٹر کا دور بھی دیکھ چکا ہوں۔ وطن عزیز میں پارلیمنٹ اور طاقت کے اصل مراکز کا تعلق آپس میں جیسا بھی ہو، مجھے میرے وطن کے ساتھ میرا عوامی نمائندہ ہی جوڑتا اور جوڑے رکھتا ہے جو اسی پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے، جس پر آپ لعنت بھیج رہے ہیں۔

میں شاید اس مرتبہ ووٹ لازما ڈالنے کی سنت قضا کر دیتا، مگر محترمین شیخ و نیازی صاحبان، آپ اور آپ جیسوں کے معاملات و گفتار دیکھ کر یہ سنت اب قضا کرنی ہی نہیں۔ یہ سنت اب ادا کرنی ہی کرنی ہے۔

آپ لعنت ڈالیں، میں ووٹ ڈالوں گا، آپ کی لعنت واپس لوٹانے کا میرے اور مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی شہریوں کے پاس یہی سب سے بہترین طریقہ ہے۔ پاکستان زندہ باد, جمہوریت پائندہ باد.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).