گسٹالٹ سائیکالوجی: کل ۔۔۔۔۔ اپنے اجزا سے منفرد ہوتا ہے


گسٹالٹ سائیکالوجی (وضعی نفسیات) کا جنم جرمنی میں ہوا۔ نفسیات کا یہ مکتبہ فکر سائنس کے باقی مکاتب کی نسبت بدقسمت رہا۔ عین اس زمانے میں یورپ پر فاشزم کی مصیبت ٹوٹی۔ نازی جرمنی میں جبر وتشدد کے نتیجے میں گسٹالٹ سائیکالوجی کے بانی سائنس دانوں کو امریکہ ہجرت کرنا پڑی۔ امریکہ میں رویوں کی نفسیات کی اجارہ داری تھی۔ گسٹالٹ سائیکالوجی کی ایک بدقسمتی یہ رہی کہ اس کے زیادہ تر بانی چھوٹی عمر میں انتقال کر گئے جیسے کافکا پچپن برس کی عمر میں چل بسے۔ تاہم قلیل عرصے میں وضعی نفسیات نے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی یکسر نئی اور انوکھی جہتیں ضرور متعارف کروا دیں۔

ریڈکشن ازم (Reductionism) کو ہم اردو میں شاید تخفیف پسندی یا تجزیہ پسندی کہہ سکتے ہیں۔ وضعی نفسیات نے سائنس میں تخفیف پسندی کے بجائے ایک یکسر نیا نظریہ متعارف کروایا۔ ایک دفعہ جناب عاصم بخشی کے ہاں بیٹھا تھا، کوانٹم فزکس میں اب تک حل نہ ہونے والے قضیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ شاید یہ پیراڈاکسز یا تناقضات کا مظہر ہوں۔ اس سلسلے میں انہوں نے زینوز کا تناقضاتی مظہر پیش کیا اور فرمایا کہ بہت سارے قضیے تخفیفیت کی دین ہیں ۔

وضعی نفسیات نے جس اہم خیال کی جانب ہماری توجہ مبذول کروائی وہ یہ تھا کہ، کُل اپنے اجزا سے منفرد ہوتا ہے۔ وضعی نفسیات کے اس اچھوتے خیال کا ترجمہ کئی دفعہ غلط کر دیا جاتا ہے اور میں خود کسی گزشتہ مضمون میں اس غلطی کا مرتکب ہو چکا ہوں۔ مبنی بر غلطی ترجمہ یہ ہے کہ ، کُل اپنے اجزا سے بڑا ہو تا ہے۔ اس ترجمے میں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ یہ سارے بنیادی خیال کو الٹ پلٹ دیتا ہے اور اس پر ‘سسٹم تھیوری’ کی صورت میں فورا اعتراض کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ وضعی نفسیات نے کہا کہ کل اپنے اجزا سے منفرد، ہٹ کر، مختلف ہوتا ہے۔ یہاں میں کُل کو ‘کچھ بڑا’ بھی لکھنا چاہتا ہوں اور یہ ‘کچھ بڑا’ سسٹم تھیوری کے دائرہ اعتراض میں اس لیے نہیں آ سکتا کیونکہ اجزا کے مطالعے میں ہم جز پر مرتکز ہوتے ہیں۔ اجزا مل کر ‘کچھ اور’ بھی تشکیل دے دیتے ہیں اور یہ ‘کچھ اور’صرف جز کے مطالعہ کا حاصل ہو نہیں سکتا۔

وضعی نفسیات نے دعویٰ کیا کہ انسان کے تخیل کی ساخت ایسی ہے جو پہلے کل کو دیکھتی ہے یعنی اوپر سے نیچے دیکھتی ہے۔ انسانی تخیل نظام کو دیکھتا ہے۔اس مضمون میں ہی ایک تصویر ہے جب آپ اس تصویر کو دیکھیں گے تو آپ کو کتا نظر آئے گا۔ کالے دھبے جن سے کتے کی شکل بنی ہے اور پس منظر میں (جو آ پ کے تخیل نے ہی تشکیل دیا ہے یعنی ترجیحا اس کو پس منظر بنایا ہے) گول دائرے آپ کی توجہ کا مرکز بعد میں ٹھہریں گے وہ بھی اگر آپ نے توجہ کی تو۔ اب اگر ان کالے دھبوں کے مقامات یا ان کی ہیت تبدیل بھی کر دی جائے تب بھی انہوں نے رہنا کتا ہی ہے۔

سب سے پہلے زینوز کا تناقضاتی مظہر حل کرتے ہیں۔ زینوز کہتا ہے کہ وہ گھر سے پارک تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ گھر سے اس کے پارک تک کا فاصلہ سو میٹر ہے۔یہ سو میٹر کا فاصلہ وہ کھربوں سال بھی چلتا رہے تو طے نہیں کر سکتا۔ زینوز اس پر ریاضی سے دلیل دیتا ہے۔ اگر پہلے پچاس میٹر کا فاصلہ چار منٹ میں طے ہوتا ہے تو اگلے پچیس میٹر کا فاصلہ وہ دو منٹ میں طے کرتا ہے۔ اس کے بعد اگلے ساڑھے بارہ میٹر کا فاصلہ وہ ایک منٹ میں طے کرتا ہے۔ اس سے اگلے سو ا چھ میٹر کا فاصلہ وہ تیس سیکنڈ میں طے کرتا ہے اور یہ سلسلہ ایک عجب لامتناہیت کا شکار ہو جاتا ہے ۔زینوز ریاضی کے اعتبار سے یہ سو میٹر کا فاصلہ اس کائنات کے قوانین کےاندر رہ کر طے نہیں کر سکتا،بلکہ اس کائنات میں کوئی بھی حرکت کر کے کہیں بھی نہیں پہنچ سکتا۔

اب اس قضیے کو ہم حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چارضرب چارسینٹی میٹر کا ایک کاغذ لیں۔ کاغذ کا نصف کسی پین کی مدد سے کالا کر دیں۔ پھر اس کاغذ کے نصف کے نصف کو کالا کریں۔ اس کے نصف کے نصف کے نصف کو کالا کریں ۔ اس کے بعد نصف کے نصف کے نصف کے نصف کو کالا کریں۔ آپ لاکھوں سال تک بھی چار ضرب چار سینٹی میٹر کا یہ کاغذ مکمل کالا نہیں کر سکتے۔ بس یہی مسئلہ تخفیفیت کے ساتھ درپیش آتا ہے جب وہ تجزیہ پسندی کے اندر اس انداز سے داخل ہوتی ہے کہ خارجی حدود اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور وہ ان میں باقاعدہ لطف لینے کی عادی ہو جاتی ہے۔

عمومی نفسیات یا نفسیات کے دیگر مکتبہ فکر، تعصبات، فکری فریبوں سے آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ ایسی دریافت فکری فریبوں اور تعصبات کی تعداد آج سیکڑوں میں ہے لیکن وضعی نفسیات نے نظری اور حسی فریبوں کو اٹھایا۔ ان فریبوں سے جب آگاہی ہوئی تو ہمیں علم ہوا کہ ہمارے تخیل کی ‘ساخت ‘ کی کچھ عجب ‘میکانیاتی ‘حدود ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ اس کی بنیادی ‘بنت’ میں کچھ ایسے بلکہ بہت زیادہ ایسے عوامل ہیں جو دماغ کے خفیفی مطالعے سے کبھی پکڑائی نہیں دے سکتے۔

آپ اسی مضمون میں ایک تصویر دیکھئے جو چند چھوٹی بڑی کونز پر مشتمل ہے۔ اب اس کے اندر دائرہ آپ کے تخیل نے تشکیل دیا ہے وگرنہ ایسا دائرہ کہیں نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور تصویر میں مثلث آپ کے تخیل کی پیداوار ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے انسانی دماغ، درمیانی وقفہ یا خالی جگہ پسند نہیں کرتا۔ (اس کی ایک دلچسپ مثال آپ کے کان میں کبھی کبھار مسلسل بجنے والی سیٹی ہے۔ دماغ کو جب کوکلیہ کے ہیر سیلز سے سگنل نہ ملے تو وہ خود ہی خالی جگہ پر کر دیتا ہے۔ گو کہ مسلسل ایک فریکوئنسی کی آواز کو کچھ دیر بعد یہ سمجھ کر بند بھی کر دیتا ہے کہ یہ آواز کان کے باہر سے نہیں آ رہی) تو خالی جگہیں پر کرنا دماغ کا پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن اس مشغلے کی وجہ سے کئی مغالطے اور فکری کج روی جنم لیتی ہے۔ ادب اور بالخصوص شاعری اس کی ایک مثال ہے جس میں ذو معنی بات کر کے خالی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے اس یقین کے ساتھ کے قاری پرکر لے گا۔ بہرحال اس میں کئی پیچیدہ قضیے ہیں۔

حسی فریب کی ایک اور شکل بھی آپ اس مضمون میں دیکھ سکتے ہیں جس میں دو متوازی لکیریں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دونوں لکیریوں کے آغاز اور اختتام پر ایک فرق ڈالا گیا ہے۔ آپ واضح طور پر محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک لکیر بڑی ہے جبکہ دوسری چھوٹی ہے جبکہ حقیقت میں دونوں لکیروں کی لمبائی ایک جیسی ہے۔ وضعی نفسیات نے اس حوالے سے کئی مثالیں دیں آپ گیسٹالٹ سائیکالوجی یا لا آف پریگنینسز کے نام سے گوگل میں تلاش ڈالیے آپکو کئی مثالیں دیکھنے کو مل جائیں گی۔

تخفیفیت پر نفسیات میں سے ہی آپ کو ایک دلچسپ مثال دیتا ہوں۔ رویوں کی نفسیات تخفیفیت کو بنیاد بناتی ہے۔ رویوں کی سائنس نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ سیکھنے کے عمل کے بڑے نظریات اسی مکتبہ فکر کی دین ہیں۔ رویوں کی نفسیات کسی بھی رویے کو ایک ایسے طبعی نمونے کے طور پر لیتی ہے جس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کو تبدیل کرنے کے کئی نظریات ہیں جنہوں نے بخوبی کام کیا ہے۔ دوسری طرف فرائیڈ سگمنڈ کی تحلیل نفسی کو کسی طور سائنس نہیں مانا جاتا لیکن کمبخت نتائج وہ بھی دے رہی ہے۔ یعنی فرائیڈ کے قائم کیے فرضیوں، لاشعور ، فوق انا، انا اور ذات وغیرہ کو اب بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ کسی نے صحیح کہا تھا کہ ،فرائیڈبہت سی باتوں میں غلط ہے لیکن بہت دلچسپ انداز میں غلط ہے۔ جب رویوں کی نفسیات آئی تو اس نے تحلیل نفسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا لیکن کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ رویوں کی سائنس اور تحلیل نفسی دونوں بہت سی باتوں جیسے ‘سوچ یا خیال’ وغیرہ پر متفق ہیں۔ آج بھی مختلف سائیکو تھراپیز میں تحلیل نفسی ایک ‘مکس’کے طور پر موجود ہے۔

اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ دماغ ایک سو ارب نیوران خلیوں یا تین سو کھرب خلیوں کے مابین رابطوں کے فقط مجموعہ کا نام نہیں ہے۔ دماغ کھربوں کھربوں کھربوں ایٹمز کا فقط مجموعہ نہیں ہے۔ ہم جب بھی تخفیفیت میں جاتے ہیں تو ڈھیر سارا ایسا علم لاتے ہیں جس سے نسل انسانی فائدہ اٹھاتی ہے لیکن اجزا کا علم اجزا کا علم ہی رہے گا۔ اجزا کے مجموعے سے نظام کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ کیونکہ ‘سمجھ ‘ کی ساخت کل سے جز کی جانب سفر کرتی ہے۔ کُل کے قضیے کُل کی سطح پر ہی سمجھے جا سکتے ہیں کیونکہ کل ۔۔۔۔۔ اجزا سے منفرد، ہٹ کر ، مختلف اور ‘بڑا’ ہوتا ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik