لاہور جلسہ؛ متحدہ اپوزیشن چاہتی کیا تھی؟


مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن کا جلسہ ختم ہو گیا۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا۔ خواجہ حیدر علی آتش بڑے شاعر تھے، بڑے شاعر کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کا شعر بار بار مختلف جگہوں پر ایسے فٹ آتا ہے جیسے اس مخصوص واقعے کے لیے ہی کہا گیا ہو۔ تقریر کرنے والوں کی شعلہ بیانیاں اپنی جگہ لیکن ایک بار ایمانداری سے دل پہ ہاتھ رکھ کے چند سوالوں کے جواب سوچیے؛

اس پورے شو کا واحد مقصد کیا تھا؟ زینب واقعے پر انصاف طلب کرنا، ماڈل ٹاؤن مقتولین کی بات کرنا یا شریف برادران سے اندھی نفرت کا اظہار کرنا؟ ایسی دشمنی جس میں شیخ رشید تھکی ہوئی اور سستی جگتیں مارتے پائے جائیں، عمران خان تقریر سے پہلو عوام کا لہو گرمانے کو ویڈیو فوٹیج دکھائیں، اس کا اظہار سوائے نفرت برائے نفرت کے، کس چیز کے حصول میں کتنا مددگار ہو سکتا ہے؟ زینب کو انصاف دلانے کے لیے تمام اپرچونسٹ ایک سٹیج پر جمع تھے یا اپنے اپنے مفاد کے لیے یہ جلسہ ہوا؟ سٹیج پر اکٹھے تمام لیڈر جو ایک دوسرے کے خلاف کئی دفعہ واضح بیانات دے چکے ہیں، کس وجہ سے مل کر سامنے آئے؟ انتخابات کے بالکل قریب، جب اس حکومت سے ویسے ہی جان چھٹ جانی ہے تو یہ لوگ کیوں اپنا سارا زور اتحادوں اور جلسوں میں لگا رہے ہیں جب کہ اس کا سارا کریڈٹ مولانا طاہر القادری کے سوا کسی کو نہیں جاتا؟

اوپر کیے گئے سوالوں میں ایک چیز پر سوال ہو سکتا ہے۔ لکھتے وقت “اپنے اپنے مفاد” کی جگہ “اپنے اپنے سیاسی مفاد” کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ اس کی وضاحت پہلے ہو جائے تو بہتر ہے۔ کل عارف کی گفتگو کسی کے ساتھ ہو رہی تھی۔ سامنے والے نے سوال کیا کہ محترم، آپ اس جلسے میں کیا سیاسی مفاد دیکھتے ہیں؟ عارف کہنے لگے کہ سیاسی مفاد ہو تو کہنا ہی کیا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ سیاست کی جیوریسڈکشن میں رہتے ہوئے چونکہ دور دور تک کوئی مفاد پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا اس لیے غیر سیاسی فائدے اور غیر سیاسی ایجنڈے کا امکان غالب ہے، اور یہی اصل خطرہ ہے۔ انسان ہر وقت سیکھنے کے مرحلے میں ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے یہاں جا کے ویسے بھی منہ بند اور دماغ کھلا رکھنا ہوتا ہے، عارف ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی بات گرہ میں باندھ لی اور واپس لوٹ آیا۔ آج لکھنے کا ارادہ کیا تو اپنی کم ظرفی آڑے آ گئی۔ پیالہ بھر گیا تھا، چھلک گیا۔

اکٹھے ہونے والے تمام سٹیک ہولڈرز پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔ پیپلز پارٹی جب بھی حکومت میں آئی تو کوئی نہ کوئی شہید فیکٹر ساتھ جڑا ہوتا تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا المیہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن پارٹی کے لیے آج بھی سب سے بڑا سپورٹنگ فیکٹر ان کے شہید ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں میں دہرائی جاتی رہی، محترمہ کا ہونے والا قتل (جو آج بھی فیصل نہیں ہوا) پچھلی بار پیپلز پارٹی کو اقتدار دلوا گیا لیکن کب تک؟ دوسری طرف عمران خان کو دیکھا جائے تو سوائے ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال کے، پورے کرئیر میں ان کے پاس کوئی بڑی کامیابی نظر نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی کا تجربہ دیکھتے ہوئے ایک طویل عرصہ ہوا وہ لاشوں کی سیاست کرنا چاہ رہے تھے۔ دھرنے ہوئے، جلسے ہوئے، جلوس نکلے، پی ٹی وی تک پہ چڑھ دوڑے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔ اتفاقاً یہ ترپ کا پتا مولانا طاہر القادری کے ہاتھ لگ گیا اور دو مرتبہ لگا۔ ایک مرتبہ ماڈل ٹاؤن واقعے کی صورت میں اور ایک مرتبہ مظلوم زینب کے معاملے میں۔ جس وقت عمران خان سٹیج پر موجود زینب کے لیے انصاف طلب کر رہے تھے اور مختلف لوگوں کی شکل دیکھ کر ان پہ قاتل ہونے کے فتوے صادر کر رہے تھے عین اسی وقت مردان کی چار سالہ اسما کی رپورٹ سامنے آ چکی تھی۔ اس معصوم چھوٹی سی بچی کے ساتھ بھی وہی سانحہ ہوا تھا جس کا شکار زینب ہوئی۔ مردان کے ناظم حمایت اللہ صاحب کا بیان تو ریکارڈ پر موجود ہے کہ تحریک انصاف کا انصاف پنجاب میں ہونے والا ہر واقعہ کیش کرانے کے لیے ہوتا ہے اور خیبر پختونخواہ میں اس نام کی چڑیا کا ذکر بھی کوئی نہیں کرتا۔ ننھی بچیاں ہوں یا بڑی عمر کی خواتین، ڈومیسٹک وائیلنس، ریپ، اور عدم صنفی مساوات ہمارے یہاں اس قدر بڑھ چکے کہ اس پر بات کرنے کو پھر سے ایک تحریر لکھی جائے گی، مسئلے کی طرف پلٹتے ہیں۔ عمران خان نے کبھی سرحد میں ہونے والے ایسے کسی واقعے پر ترنت ایکشن کیوں نہیں لیا، سب چھوڑئیے مشال خان کیس میں کیا پراگرس ہے؟ ڈی آئی خان والا کیس جس میں گنڈا پور صاحب کا نام لیا گیا تھا وہ کہاں تک آگے بڑھا؟

دیکھیے سوال کا جواب سوال سے دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ “تم نے یوں کیا” کا جواب “تم نے بھی تو ایسے ہی کیا” ہو سکتا ہے لیکن وہ چیز نامناسب ہے۔ محترم عمران خان سے پوچھا جانا چاہئیے کہ مشال یا ڈی آئی خان کیس پر مخالف جماعتوں نے سیاست آخر کیوں نہیں کی؟ وہ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ فقیر کی ناقص رائے کے مطابق یہ تمام کیسز سوسائٹی کی قبائلی اور بدبودار ذہنیت کی وجہ سے ہوتے ہیں، کوئی بھی حکومت آ جائے، جب تک لوگ خود اپنا رویہ نہیں بدلیں گے، یہ واقعات روزانہ کئی گھر اجاڑتے رہیں گے۔ تو ان ایشوز پہ سیاست کرنا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب یا تو سیاست کرنے کا موڈ نہ ہو، یا سیاسی میدان میں دوسرے پر لگانے کے لیے کوئی الزام نہ بچا ہو اور یا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھا نکتہ ہے تو پہلے تمام اکابرین کی گھن گرج پہ غور کر لیجیے گا۔ بزرگ سمجھاتے تھے کہ جب اپنے موقف کا کھوکھلا پن محسوس ہو جائے تو آوازیں اونچی اور الفاظ نفرت بھرے ہو جاتے ہیں۔

ایک افسوس ناک بات یہ نظر آئی کہ وہ پیپلز پارٹی جس کے لیڈر بات کر کے بے شک دبئی جانا پسند کرتے ہوں، بات کرتے ضرور تھے، آج اس جماعت کا فیبرک اس قدر باریک ہو چکا ہے کہ وہ پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ سپیس شئیر کر رہی ہے۔ وہ آصف علی زرداری جن کا بیان تھا کہ جہاں صحافی سوچنا ختم کرتا ہے وہاں ان کی سوچ شروع ہوتی ہے وہی زرداری صاحب ایسی چالیں چل رہے ہیں جنہیں سوچنے والا کوئی بھی دماغ بہت آسانی سے کیچ کر سکتا ہے۔

رہی مولانا طاہر القادری کی بات تو ایک معصوم بچی کا ریپ کیس جس طریقے سے انہوں نے پولیٹیسائز کیا ہے پوری امید ہے کہ چند دنوں میں اس کے والدین بھی کوئی اختلافی بیان دینے پہ مجبور ہو جائیں گے۔ حد یہ کہ عمران خان صاحب نے تقریر کا آغاز زینب والے معاملے سے کیا اور اسی تقریر میں مولانا صاحب کو مبارک دیتے بھی پائے گئے کہ انہوں نے پوری اپوزیشن کو ایک جھنڈے تلے جمع کر لیا۔ کیا یہ مبارک باد کا مقام تھا؟ ذاتی مفاد کو سیاسی مفاد کا رنگ دینا اور سیاسی مفاد کو عوامی مفاد کا لبادہ اوڑھے دیکھنا چاہیں تو غور کیجیے گا۔ یہ بھی سوچیے گا کہ آپ کے حق رائے دہی سے بنی پارلیمینٹ پہ لعنت کیوں دی جاتی ہے اور ان مولانا کی سربراہی میں کیوں دی جاتی ہے جو کبھی اس نظام میں چل ہی نہیں سکے؟ یہ سب کڑیاں جوڑی جائیں تو اس پورے شو کا مقصد سامنے آ جاتا ہے لیکن جانے دیجیے، کلوزنگ قریب ہے اور اہم ترین بات رہے جاتی ہے۔

زینب کیس میں اس قدر دباؤ ڈالے جانے کے بعد اگر کوئی بے قصور انسان مجرم ٹھہرایا گیا، یا قصوروار آدمی پکڑے جانے پہ دوران تفتیش ہی کسی افسر کی نفرت کا شکار ہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
کیا یہ سارے قابل احترام لوگ جو اس “ایک ایجنڈے” پہ جمع ہوئے یا حکومت جس کی ٹانگیں کھینچ کھینچ کر اسے ہوا میں معلق کیا جا چکا ہے؟ اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کیجیے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain