ایسی جمہوریت، ایسی پارلیمنٹ پر لکھ واری لعنت


ایسی جمہوریت، ایسی پارلیمنٹ پر لکھ واری لعنت کون نہیں بھیجے گا جو خود پر لعنت بھیجنے والوں پر بھی لعنت نہیں بھیجتی۔ ایسی پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت تو بنتی ہے جو اپنے بے توقیر کرنے والوں کو بھی عزت و تکریم سے نوازتی ہے۔ ایسی جمہوریت کو برا سب کہیں گے جو خود کو گالی دینے والوں کو بھی سینے سے لگاتی ہے۔ ایسی پارلیمان سے ہم بے زار جو خود پر انگلی اٹھانے والوں کو بھی سلام کرتی ہے۔ ایسی جمہوریت سے توبہ جو اپنا دفاع خود نہ کر سکتی ہو۔ اس جمہوریت اور اسی پارلیمنٹ نے ہی تو آزادی اظہار رائے اور سوال اٹھانے کے حق کی آزادی کے نام پر ایک اطاعت گزار قوم میں جرات اور بغاؤت کو فروغ دیا ہے تو اس حق کاا استعمال بھی اسی پر کیوں نہ کیا جائے۔

 یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں قرضے معاف کرنے والے، ٹیکس ادا نہ کرنے والے اور قانون توڑنے والے سب اسی پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کا فائدہ اٹھا کر بچ جاتے ہیں۔ جہاں کہیں اگر قانون کے ہاتھ کسی کے گریبان تک پہنچ بھی جاتے ہیں تو یا قانون نہیں رہتا ہے یا پھر قانون بنانے والے نہیں رہتے۔ یہاں مجرم سے پوچھنے اور ملزم کو سوال کرنے کی اجازت کیوں ہے؟ یہاں تو ایک عادل، ایک قاضی اور ایک ایسے حاکم کی ضرورت ہے جو سزا پہلے دے اور پوچھے بعد میں۔ یہاں مقدمے برسوں چلتے ہیں اور فیصلے نسلوں بعد ہوتے ہیں۔ اس جمہوری قانون نے فوری انصاف کی فروانی کو بند کر دیا ہے ورنہ ہمارے یہاں بھی سعودی عرب کی طرح ہر جمعہ کو گردنیں اڑائی جاتیں اور کوڑے مارے جاتے۔ تب کسی کو جرات نہ ہوتی جرم کرنے کی۔ مولا بخش کے خوف سے تھایندار کو مائی باپ اور سپاہی کو سرکار کہنے والے اگر پارلیمنٹ کو بھی گالی نہ دیں تو کس کو دیں جو نہ کسی کو مار سکتی ہے نہ کسی کو بند کرسکتی ہے۔

لعنت تو اس پارلیمنٹ پر اس وقت ہی بھیجنی چاہئے تھی جب اس نے اپنے ایوانوں کو زمین بوس کرنے والوں کی اپنے بنائے ہوئے آئین کے تحت گردن زدنی کے بجائے آٹھویں بار اس میں ترمیم کر کے ان کے گلے میں معافی کا ہار ڈال کر ایسا جرم بار بار کرنے کی اجازت دی تھی۔ اپنے مجرم کو معاف کرنے والی  پارلیمنٹ اور اس کے بنائے دستور کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے اپنا سینہ گولیوں کے سامنے پیش کرنے والوں اور اپنی پشت کوڑوں کے سامنے بچھانے والوں کی رانی بے نظیر نے بھی کبھی اس پارلیمنٹ پر ملامت نہیں کی تھی جس کی وجہ سے یہ پارلیمنٹ اور توانا ہوگئی۔  پارلیمنٹ  نے آٹھویں ترمیم کو ایک اور ترمیم سے بدل کر پھر اسی دستور کو بحال کیا۔ ایسی پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت تو بنتی ہے جو بار بار اپنے بنائے قوانین اور دستور کو بدل کر جمہوریت کی برائی کو فروغ دیتی ہے۔ اس لعنتی پارلیمنٹ نے ہی اٹھارویں ترمیم کے نام پر صوبوں کو اختیارات دے کر وفاق کی افسر شاہی میں رخنہ ڈالا۔ اسی پارلیمنٹ نے صدر کے اختیارات ختم کر کے ممنون حسین جیسے کو بھی اس کرسی پر بٹھا دیا جس پر بیٹھ کر ایوب، یحییٰ، ضیا اور غلام اسحٰق جیسے نابغۓ درس جمہوریت دیا کرتےتھے۔

ایسی پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت کیوں نہیں جس کے ممبران کو خرید کر آٹھویں ترمیم کے ذریعے آمریت کو جائز قرار دلوانے والا بیوپاری آج اپنے کئے پر شرمندہ اور تاریخ سے معافی کا خواستگار ہے ۔ایسی جمہوریت سے توبہ جہاں باپ کے قاتلوں اور ماں کی توہین کرنے والوں کے خلاف انتقام کے بجائے بات چیت کی جائے۔ ایسی جمہوریت پر لعنت بھی کم ہے جو سوال کرنے والوں کو جیل میں بند کرنے کے بجائے جواب دینے پر مجبور کرے اور اپنے خلاف بولنے والوں کے منہ بند کرنے کے بجائے شاباشی دے۔ ایسی پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت جو سپہ سالاروں کو کیڑے مکوڑوں جیسے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ بنادے اور جو کسی دانا کی عقلمندی کو بے وقوفوں پر فوقیت نہ دے۔

گھوڑوں کا اصطبل اور بینگنوں کی تھالی کہلانے والی پارلیمنٹ بھی کبھی مطعون نہیں ہوئی جہاں بڑے بڑے تمندار اور اونچی پگ والے دن میں اپنی بولی لگاتے اور رات کو گورنر ہاوس میں سودا طے ہوجاتا جس کی اطلاع ایک ٹیلی گرام سے دی جاتی اور کہیں دور موگمبو خوش ہو جاتا تھا۔ اور جو بولی نہیں لگاتا تھا اور بکنے سے انکاری ہوتا وہ دوسرے دن اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کہانیاں اخباروں میں پڑھتا یا گاؤں میں اس پر بکری چوری کرنے کا یا پھر کسی کی زمین ہتھیانے کا کیس درج ہو جاتا۔

ایسی پارلیمنٹ پر لکھ واری لعنت بھی کم جہاں دوبارہ آنے کے لئے اپنی زبان کٹوانے والے اور پنڈی والے شیخ کی گز بھر لمبی زبان سے اپنی بار بار کی بے عزتی برداشت کرنے والی نے جلاوطنی میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے پارلیمان کے دروازے اکھاڑنے کے راستوں کو مسدود کرنے کا بندوبست کیا۔ وہ کیسی اچھی حکومت تھی جو آئین توڑنے والے کو دس بار وردی میں صدر منتخب کروا رہی تھی۔ ایسی اچھی حکومت کو سڑک کا راستہ دکھانے والی پارلیمنٹ پر لعنت نہ ہو تو پھر کیا ہو۔ جس پارلیمان میں جی ایم سید، باچا خان۔، صمد خان ، نوب خیر بخش مری، نواب بگٹی اور عطااللہ مینگل کی اولادیں بیٹھ کر اپنے مطالبات کو گولی اور بارود کے بجائے زبان و بیان سے طے کریں اس پر لعنت تو بنتی ہی ہے۔

پنجاب کے دل لاہور کے مال روڈ پر کھڑے ہو کر پارلیمنٹ پر تبریٰ بھیجنے والوں کو آئین کی شق چھ کی خلاف ورزی کے ایک مجرم نے تہنیت کے پیغامات بھیجے ہوں گے۔ جمہوریت کے بچے سے چھٹکارا پاتے پاتے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کروانے والے نے بھی آج خوشی منائی ہوگی کہ جو کام وہ بنیادی جمہوریتوں سے نہ کروا سکا آج پارلیمانی جمہوریت کا حصہ بننے والے سیاسی قائدین کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کلاشنکوف کی درآمد سے ملک کے عرض و طول میں جہاد پھیلانے والے نے بھی آج سکھ کا سانس لیا ہوگا۔ جس پارلیمنٹ کو برا کہلوانے کی تمنا اس کو زندگی میں رہی، آج اس کے مرید اور چیلے برسرعام ہزاروں کا مجمع اکھٹا کر کے اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہے ہیں۔

عالم ارواح میں کہیں ایک رانی ماتم کناں ہو گی جس نے اپنی جوانی اور زندگی اس ملک میں پارلیمنٹ کی توقیر اور جمہوریت کی بحالی پر نچھاور کی تھی۔ اس کا بھائی اعتزاز احسن جو آئین کے بل بوتے ہی پر “ریاست ہو گی ماں کے جیسی” گاتا تھا آج اس کی موجودگی میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی گئی اور وہ مسکراتا رہا۔ جس قمر زمان کائرہ کی جمہوریت پسندی پر اس کو ناز تھا وہ بھی آج یہاں سوشلزم کی گردان کرنے والے چوہدری منظور کے ساتھ موجود تھا ۔ باقی تو سیاسی ساتھی تھے مگر رانی شہید کے اپنے جیون ساتھی نے بھی اسی سٹیج سے خطاب کیا جہاں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی گئی۔ کیا زرداری، کائرہ، اعتزاز احسن اور چوہدری منظور کو پارلیمنٹ پر لعنت کے الفاظ سنائی نہیں دئے؟

میں نے بھی دل کھول کر آج پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی کیونکہ اس ملک میں کسی کی بھی توہین کرنا جرم ہے سوائے پارلیمنٹ۔ آج تک پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کرنے پر کسی کی سرزنش نہیں ہوئی۔ اگر پارلیمنٹ خود پر سرعام لعنت بھیجنے والوں کو رد نہیں کرتی تو ایسی پارلیمنٹ پر ہزار واری لعنت۔ اس پارلیمنٹ میں پانچ سال گزار کر اس پر لعنت بھیجنے والوں جو جمہوریت پھر سے پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دیتی ہے، ایسی جمہوریت پر بھی لکھ واری لعنت۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan