نہتی گلالئی بمقابلہ غیرت مند پختون


کوئی بھی قوم آسمان سے فرشتہ صفت بن کر نہیں اترتی۔ ہر گروہ میں قبیح رسم و رواج ہوتے ہیں، جسے وہ ثقافت کا نام دیتے ہیں ۔ ثقافت اکتسابی یا غیر ارادی طرز عمل کا نام ہے۔ ثقافتی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات، رسوم اور رواج شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کا خاصہ یہ ہے کہ یہاں جھوٹ وافر مقدار میں اور سینہ ٹھونک کر بولا جاتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ جھوٹ، خود ساختہ تاریخ بن کر سچ بن جاتا ہے اور یہی حال پشتون خطے کا بھی ہے۔ پختون ثقافت ہمیشہ سے دیومالائی بیانیہ کے زیر اثر رہی ہے۔ پختونوں کو عرصہ دراز سے جاہل رکھا گیا، ان کو غیرت کا پاٹھ پڑھا کر نادیدہ اورنا دیدہ قوتوں نے ہر دور میں اپنے مقاصد کے لئے شدت پسندی اور عسکریت پر اکسایا۔

پختون اپنے جس ثقافت پر اتنا فخر کرتا ہے اسی سماج میں عورت انسان تصور نہیں کی جاتی۔ پختون رواج میں عورت کو اپنی مرضی کا حق کبھی نہیں دیا گیا۔ یہاں عورت کی تقدیر کا فیصلہ گھر کے مردوں کے پاس ہوتا ہے۔ ان کی مرضی، دل کیا تو آپسی دشمنی ختم کرنے اور اپنی جان پخشی کرانے کے لئے سوارہ بنا کر دوزخ میں دھکیل دیا یا اپنی ناک بچانے کے لئے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ پیدا ہوتے ہی لڑکی کی تقدیر کا فیصلہ کردیا جاتا ہے اور اس کے بعد کم عمری میں ہی اسکی شادی کرادی جاتی ہے۔جس سے اس کا ناتا والدین، گھربار، بہن بھائیوں سے صرف نام کا رہ جاتا ہے اور شادی کے بعد اسکی دو ہی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، اول بچے پیدا کرنے کی مشین بن جانا اور دوئم اپنی سسرالیوں کے سامنے اف بھی نہ کرنا۔ یہاں کے رواج کے مطابق عورت کو جائیداد میں اس کا شرعی حق نہیں دیا جاتا۔ ایسا نہیں کہ یہاں کے مرد دین سے دور ہیں بلکہ یہاں کے ہر محلے میں ایک مدرسے سے فارغ التحصیل فاضل عالم بآسانی دستیاب ہے۔ کم وبیش ہر مرد نے زندگی میں تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ وقت ضرور لگایا ہے۔

پختون معاشرے میں ایسی عورت کی تعریف کی جاتی ہے جو اپنی زبان نہ کھولے، بس غلاموں کی طرح کام کرے اور برداشت کرے۔ پختون رواج میں اس مرد کو ہی غیرت مند تصور کیا جاتا ہے جو اپنی بیوی پر بے دریغ ہاتھ اٹھاتا ہو۔ گھریلو تشدد صرف شوہر تک محدود نہیں بلکہ ساس، سسر، دیور اور نندیں بھی اپنا زور بازو، وقتاً فوقتاً آزماتی ہیں۔

پختون سماج میں عورت کے پاس اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف بولنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا کیونکہ ایسی عورت کو نہ اپنے گھر والے واپس قبول کرتے ہیں اور نہ سماج۔ پختون معاشرے میں خواتین کے لئے روزگار کے انتہائی محدود مواقع ہیں اور دوسری طرف کم عمری میں شادی کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتی۔ ایسے میں عورت کی اپنی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

گلالئی اسماعیل نامی خاتون نے پختون سماج میں عورت کے استحصال کا ادراک کیا اور اپنا اجتماعی فریضہ جان کر Aware Girls  نامی تنظیم کی بنیاد رکھ کر وہ آگے بڑھیں اور کم عمری کی شادی کے خلاف، خواتین کے حقوق کی آگاہی، تعلیم اور ان کو بااختیار بنانے کے لئے اپنی جدوجہد ملکی اور غیر ملکی سطح پر شروع کی۔ پختون مرد چاہے دیہی علاقے کا ان پڑھ گنوار ہو یا شہری علاقے تعلیم یافتہ جوان، کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا کہ خواتین کے بیچ اپنے حقوق کے متعلق آگاہی پھیلے۔

اس کی تازہ مثال 15 جنوری کو پشاور پریس کلب کے باہر سماج کے ٹھیکدار، غیرت مند مردوں اور تعلیم یافتہ جوانوں کا احتجاجی جھمگھٹا ہے جو گلالئی اسماعیل کے خلاف اور اپنے خودساختہ کلچر کو بچانے کے لئے لگایا گیا۔ ان کے بقول عائشہ گلالئی اور اس کی غیر سرکاری تنظیم Aware Girls پختون ثقافت کے خلاف سازش اور خطرہ ہے۔ ان مردوں میں اکثریت مردان یوتھ پارلمنٹ کے نوجوان ممبران کی تھی۔ جو پریس کلب کے باہر پختون کلچر زندہ باد، گلالئی کو گرفتار کرو، نعرہ تکبیر، پاکستان فوج زندہ باد، پولیس زندہ باد، ہماری کلچر ہماری غیرت اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے لگا رہے تھے۔

وائس آف امریکہ ڈیواہ ریڈیو کے صحافی، بہروز خان کے بقول اس احتجاجی مظاہرے کے رہنما اور مردان یوتھ پارلیمنٹ کے صدر حمزہ خان نے ایک ٹیلفونک پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ گلالئی ہندو ہے، نماز نہیں پڑھتی، اس کے ماں باپ مسلمان ہیں لیکن یہ لڑکی خود مسلمان نہیں۔ گلالئی کے خلاف ایک ویڈیو بھی بنائی گئی جس میں حمزہ خان اور اس کے ساتھیوں نے مشال خان جیسا واقعہ دہرانے، گینگ ریپ اور تیزاب پاشی کی دھمکیاں دیں۔ بہروز خان کے مطابق، ٹیلوفونک پیغامات اور ویڈیو کے ثبوت گلالئی کی طرف سے ایف۔آئی ۔اے اور پولیس کو رپورٹ کی جا چکی ہیں اور ایف۔آئی ۔اے کی درخواست پر فیس بک انتظامیہ نے وہ ویڈیو ہٹائی ہے۔

باچا خان بابا نے فرمایا کہ کسی ثقافت کے تہذیب یافتہ ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ عورتوں کے ساتھ کیسے سلوک کیا جارہا ہے۔ یہ کیسی ثقافت ہے جو ایک پختون نہتی لڑکی کی وجہ سے خطرے میں ہے اور یہ کیسے پختون ولی اور پختون روایات کے علمبردار مسلمان ہیں جو ایک لڑکی کو اجتماعی آبروریزی، قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں، ان لوگوں کی اچھل کود سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خواتین کے بااختیار ہونے سے خوف کا شکار ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پختونوں سے منسوب دیو مالائی روایات اور کہانیاں رد کی جائیں۔ یہ کام باشعور پختون خواتین کو آگے آ کر کرنا ہو گا۔ اپنے خلاف جاری استحصال کو خود ہی روکنا ہوگا۔ مردانہ غیرت اور جہالت کی اس خود ساختہ ثقافت دیوار کو لمحہ بہ لمحہ دھکا دینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).