زینب قتل کیس: مجرم کون ہے، پکڑا کیوں نہیں گیا؟


لاہور

پاکستان کے شہر قصور میں چند روز قبل سات سالہ بچی زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کی واردات میں پولیس کو 20 سے 40 سالہ ایک شخص مطلوب ہے۔

مرکزی تصور کیے جانے والے اس ملزم کی گرفتاری پر زینب ہی نہیں، ان سات بچیوں کے مقدمات کا حل بھی منحصر ہے جنہیں قصور میں گذشتہ دو برس کے دوران اِغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے تین خوش قسمتی سے زندہ بچ گئیں۔

قصور پولیس کے مطابق ان تمام وارداتوں میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قصور کے ضلعی پولیس آفیسر زاہد علی مروت نے بتایا کہ اس امر کی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی جا چکی ہے۔

’یہ شرم ہماری نہیں معاشرے کی ہے‘

’مجھے بچانا والدین کی ذمہ داری تھی نہ کہ ریاست کی‘

زینب کیس: پولیس کو دو دن کی مہلت، قصور میں فورینزک کیمپ

’مردہ اور زخمی حالت میں ملنے والی تمام بچیوں کے جسموں سے حاصل کیے جانے والے ڈی این اے کے نمونے آپس میں مطابقت رکھتے ہیں یعنی وہ ایک ہی شخص کے ہیں۔‘

یاد رہے کہ زینب قتل کیس میں تفتیش کے لیے دو جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیمیں تشکیل دیں گئیں جو سائنسی اور تکنینی بنیادوں پر تفتیش کو عمل میں لا رہی ہیں۔ مرکزی ٹیم ریجنل پولیس آفیسر ملتان محمد ادریس احمد کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔

ان کو پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت حاصل ہے جبکہ روایتی طریقہ کار پر مقامی پولیس قاتل تک پہنچنے کے لیے تفتیش کر رہی ہے۔

سینکڑوں کی تعداد میں ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے جا چکے ہیں جن میں 450 سے زائد کے نتائج بدھ کی رات تک سامنے آچکے تھے۔ تاہم ان میں پولیس کو مطلوب شخص شامل نہیں تھا۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ قاتل کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پولیس کی تحویل میں ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ’ابھی ہم نے اسے گرفتار کرنا ہے، مگر ہماری تفتیش درست سمت میں چل رہی ہے اور ہم جلد اس تک پہنچ جائیں گے۔‘

پولیس کو مطلوب شخص کون ہے؟

قصور

اب تک کی جانے والی تفتیش کے نتیجے میں سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر پولیس کے مطابق ان وارداتوں میں ملوث شخص مقامی معلوم ہوتا ہے۔

قصور کے ضلعی پولیس آفیسر زاہد علی مروت نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے طریقہ واردات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’وہ اس علاقے کی ایک ایک گلی اور نکر سے انتہائی اچھی طرح واقف ہے‘۔

وہ نشاندہی اور مخبری کے بعد بچیوں کو اغوا کرتا ہے۔ جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے افسر کے مطابق تقریباً ہر واردات میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اغوا کرنے کا مقصد جنسی زیادتی ہی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی ہوس کا نشانہ بننے والی بچیوں پر جسمانی تشدد یا زخموں کے نشانات پائے جانے کے شواہد نہیں ملے۔

’میڈیکل رپورٹس کے مطابق تمام بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جس کے علاوہ ان پر جسمانی تشدد نہیں کیا گیا۔ قتل کیے جانے والی بچیوں میں موت کی وجہ دم گھٹنا معلوم ہوئی ہے۔‘

پولیس کے مطابق مجرم قتل کرنے کے بعد لاشوں کو دفن نہیں کرتا تھا۔ تمام لاشیں یا تو زیرِ تعمیر عمارتوں یا کچرے کے ڈھیروں سے برآمد ہوئیں اور تین سے چار دن پرانی بتائی جاتی تھیں۔

کیا لاشوں کو پھینکنے سے پہلے چند دن رکھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مجرم شاطر ہے اور اس سے اس کا مقصد یہ ہو سکتا تھا کہ ان کی میڈیکل تشخیص میں ریپ ظاہر نہ ہو پائے؟

جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے افسر کا کہنا تھا کہ ایسی ہی نوعیت کے وہ واقعات جن میں ماضی میں گرفتاریاں عمل میں آئیں ان میں ملزمان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ بچی کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ وہ جنسی تشدد کے دوران ہلاک ہو گئ۔

پولیس کے خیال میں زینب اور دیگر سات وارداتوں میں ملوث شخص کا طریقہ کار بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ریپ کے کیس میں میڈیکل تشخیص جلد از جلد کروائے جانے پر زور دیا جاتا ہے تا کہ ثبوت ضائع ہونے کا خدشہ نہ ہو، تاہم ڈی این اے ٹیسٹ کسی بھی وقت کیا جا سکتا۔

دو سال میں مجرم گرفتار کیوں نہیں ہو پایا؟

قصور

قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی، اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کی آخری آٹھ وارداتیں محض تین مربع کلو میٹر کے علاقے سے سامنے آئیں۔ مجرم بچیوں کو اس علاقے میں واقع تین تھانوں کی حدود سے اغوا کرتا تھا یا قتل کرنے کے بعد لاشیں وہاں پھینکتا تھا۔

ہر واردات کے درمیان عموماً دو سے تین ماہ کا وقفہ ہوتا تھا۔ قصور پولیس مقدمات درج کرنے کے بعد ہر واردات کی تفتیش کرتی رہی تاہم مجرم تاحال نہیں پکڑا جا سکا یا جا سکے۔

پولیس کے مطابق جہاں وارداتیں ہوئیں وہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ تاہم مجرم کے نہ پکڑے جانے کی ایک بنیادی وجہ معاشرے میں پائے جانے والی وہ سوچ ہے جس میں ریپ کے معاملے پر رسوائی کا خوف پایا جاتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے لوگ زیادہ تر سامنے آنے یا پولیس سے رابطہ اور تفتیش میں تعاون کرنے سے کتراتے ہیں۔

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فوجداری مقدمات کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مجرم کی عدم گرفتاری یہ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس کی تفتیش میں کمی تھی۔

’یہی جیو فینسنگ یعنی موبائل فون پر مشکوک افراد کی جگہ کا تعین کرنے کے طریقے اور فورنزک تجزیے آج سے چھ ماہ یا ایک سال قبل کر لیے جاتے اور جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیمیں بنا لی جاتیں تو شاید دوسری یا تیسری واردات ہی پر مجرم پکڑا جاتا۔‘

ان کے خیال میں پولیس کے زیادہ تر افسر اس قسم کی وارداتوں کی تفتیش کے لیے موزوں مہارت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ ثبوت اکٹھے نہیں کر پاتے۔

گرفتاریاں

قصور

پولیس کے مطابق زینب کیس میں تفتیش کے دوران کئی مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔ تاہم ان کی صحیح تعداد کے بارے میں پولیس نے معلومات فراہم نہیں کیں۔

قصور کے ضلعی پولیس افسر زاہد علی مروت نے بتایا کہ اس حوالے سے بدھ کے روز ایک مشکوک شخص کو لاہور سے گرفتار کر کے قصور لایا گیا اور تفتیش کی گئی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کو مرکزی ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ کسی بڑی پیش رفت یا گرفتاری کی انھوں نے تصدیق نہیں کی۔

پولیس کے مطابق قصور میں سنہ 2015 سے لے کر اب تک چھوٹی بچیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کر کے قتل کرنے کی 12 وارداتیں ہو چکی ہیں۔

ان میں سے تین وارداتوں میں ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ آٹھ وارداتیں ایسی ہیں جن میں مجرم تاحال عدم گرفتار ہیں۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp