میڈیا رزق حرام ہے، تنخواہ نہیں ملے گی


شفیق الرحمان نے اپنی کسی تحریر میں، دو کرداروں کی زبان سے کچھ یوں‌ کہلوایا ہے:
”’آپ کا بھائی کیا کرتا ہے‘؟
’وہ اداکار ہے‘۔
’آپ کیا کرتے ہیں‘؟
’میں بھی بیکار ہی ہوں‘۔“

کوئی زمانہ تھا، خاص طور پہ اداکاروں سے یہ پوچھا جاتا تھا، کہ آپ کام کیا کرتے ہیں۔ وہ کہیں کہ ’اداکاری‘، تو سائل ’کام‘ پہ زور دیتے دُہراتا تھا، کہ ”نہیں! یہ بتائیے کام کیا کرتے ہیں؟“ آج اداکاری جزوقتی نہیں، کل وقتی کام بن گیا ہے۔ اداکاروں کو خوب معاوضہ ملتا ہے، ان کے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ سو! شفیق الرحمان کا نقل کیا گیا درج بالا فسانہ، آج بے معنی ہو کے رہ گیا ہے۔

اس طرح ہمارے یہاں نجی ٹیلے ویژن چینل کی بہتات نے اداکاروں کے علاوہ تکنیک کاروں پر بھی روزگار کے دریچے کھول دیے ہیں۔ پاکستان میں بے روزگاری ایک مسئلہ تو ہے؛ چناں چہ جسے کہیں ملازمت نہیں ملتی، وہ محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوجاتا ہے، جو اس سے بھی زیادہ نالائق ہو، اس کے لیے شوبز انڈسٹری تو کہیں گئی نہیں۔ قریب قریب یہی احوال ’نیوزبِز انڈسٹری‘ کا ہے۔ آج کا شفیق الرحمان کہتا ہے، ”جس ڈاکٹر کی پریکٹس نہیں چلتی، وہ نیوز اینکر بننے چلا آتا ہے“۔

پروگرام پروڈکشن ہاوسز اور ٹیلے ویژن چینلوں کے کارکنوں میں ایسوں کی کمی نہیں، جو اس انڈسٹری کو ’ناجائز‘ اور یہاں کام کرنے والوں کی محنت کی کمائی کو ’حرام‘ کہتے ہیں۔ ملازمت سے برطرف کردیے جائیں تو اس فیلڈ پر لعنت بھیجنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک دِن میرے ایک کولیگ نے بڑے رسان سے کہا:
”ظفر بھائی، ہے تو یہ حرام کام ہی ناں“!
یہ سن کے میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، پوچھا۔ ”اگر حرام سمجھتے ہو، تو کیوں اپنے بچوں کے منہ میں حرام لقمہ لے جا ڈالتے ہو“؟
”کہیں اور نوکری نہیں ملی، تو بھوکے نہیں مرنا تھا، مجھے“! موصوف نے شرمندہ ہوئے بغیر جواب دیا۔

ایسی مثالیں دیکھ کے اس انڈسٹری کے مستقبل سے کیا امید لگائی جائے، جہاں پروفیشن کی لاج نہیں، بس اپنے مقام کی فکر ہے، کہ کیسے اگلا قدمچہ سر کیا جائے۔ بہرحال یاسیت دیرپا نہیں ہوتی، کہ یہاں وہ دیوانے بھی ہیں، جو امید بن کے نمودار ہو جاتے ہیں۔

احوال یہ ہے کہ ٹیلے ویژن چینل اپنے ملازمین کو کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں دیتے، یا دو دو تین تین مہینے لیٹ کر دیتے ہیں۔ پہلے یہ چھوٹے درجے کے نیوز چینل کی رِیت تھی، ان کے دیکھا دیکھی وہ چینل بھی ملازمین کی تنخواہیں دیر سے ادا کرنے لگے ہیں، جو اپنے آپ کو نمبر ون کہلوانے پر مصر ہیں۔

ٹیلے ویژن چینلوں میں دو تین، اور ہر چینل میں دو ایسے شعبے ہیں، جہاں کارکنوں کو وقت پہ تن خواہ ادا کردی جاتی ہے۔ ایک نیوز رُوم اور دوسرا سیلز ڈپارٹ منٹ۔ سیلز ڈپارٹ منٹ، چینلز کو اشتہار کی مد میں کما کے دیتا ہے۔ ان کی ناراضی سیٹھ کو وارا نہیں کھاتی، اسے طرح نیوز اینکر بھی ’کمائی‘ کا ذریعہ ہیں۔ بلیک میلنگ کے ذریعے کمائی کیسے کی جاتی ہے، اس پہ کچھ لکھنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا ہے۔

اب رہ گئے وہ مزدور پیشہ، جن کی محنت سے کارخانے کی چمنی سے دھواں اٹھتا ہے، وہ شکوہ کریں کہ ہمیں دو دو تین تین ماہ سے تن خواہ نہیں ملی، اور دوسروں پہ ڈھتے ظلم پر انگلیاں اٹھانے والے پروگرام اینکر، ان سیٹھوں کے ناروا روئیے کے خلاف کیوں کوئی پروگرام نہیں کرتے، تو جواب میں یہ کہا جاتا ہے، کہ جنھیں وقت پہ تن خواہ نہیں ملتی، وہ ملازمین کیوں استعفا نہیں دے جاتے۔ گرچہ یہ دلیل بودی ہے، لیکن ایسا جواب دینے والے اپنے کہے پہ یوں داد وصول پاتے ہیں، جیسے تیز نشانے پہ دے مارا ہو۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ظالم پر تنقید کی جائے اور جواب میں یہ سننے کو ملے کہ مظلوم اس کی دست رس سے دور کیوں‌ نہیں ہوجاتے۔

پھر کیا ہے کہ مظلوموں میں اتفاق کی کمی بھی ہے۔ ایک ملازم استعفا دیتا ہے، تو اس کی جگہ آٹھ بے روزگار درخواست لیے کھڑے ہوتے ہیں؛ ان میں سے بہت ایسے ہیں، جن کی نظر میں یہ شعبہ ’ناجائز‘، اور اس شعبے سے کی گئی کمائی، حرام ہے؛ ایسے کارکن راضی بہ رضا سیٹھ ہیں، کہ ان کی محنت کا معاوضہ دینا، نہ دینا؛ دیر سویر کرنا یہ سب سیٹھ کی صواب دید، نیز سیٹھ کا استحقاق ہے۔ یہ مزدور اپنے کام کو کسب حلال سمجھیں تو وقت پہ معاوضہ نہ ملنے پہ جہاد بھی کریں۔

کوئی اس پروفیشن پر لعنت بھیجیے، حرام کہے، جس سے وہ وابستہ ہے، یہ زیبا نہیں۔ پھر وہ جن کا ایمان ہے، رزق خدا دیتا ہے، انھیں ہرگز ’حرام‘ شعبوں کو منتخب نہیں کرنا چاہیے۔ یہی میں نے اپنے کولیگ سے کہا، یا تو تم فیصلہ کرلو، کہ تم خدا کو مانتے ہو، اور وہ رازق ہے؛ یا یہ مان لو، کہ تم موقع پرست ہو، خدا کے نام کو محض ڈھال بناتے ہو۔ تمھیں اس ادارے سے جتنا ملتا ہے، اتنا کسی اور شعبے میں، زیادہ محنت کرکے بھی نہیں کماسکتے۔ احوال یہ ہے کہ اپنے جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے ہم خدا اور رسول کو بیچ میں لے آتے ہیں، جب کہ اس پہ یقین ہی نہیں ہے۔ ایمان ہو، تو رازق پہ بھروسا بھی دکھائی دے۔

جملہ معترضہ؛ آج کل میرے یہ کولیگ جو اس کام کو ’حرام‘ سمجھتے ہیں، ترقی کے زینے طے کرتے، ایک نیوز چینل میں معتبر عہدے پر فائز ہیں۔ پڑھیے، ’انا للہ و انا الیہ راجعون!“

مزدور کو پسینا خشک ہونے سے پہلے مزدوری مل جانے کا فلسفہ دُہراتے، یہ ’مومن‘ جنھیں ریاست کے ہر ادارے کے ’مظلوم‘ کا غم کھائے جاتا ہے، وہ اپنے ہی پیٹی بھائی سے یہ کہیں، کہ آپ پہ ظلم ہوتا ہے تو آپ کہیں اور چلے جائیں۔ یہ ظالم کا ساتھ دینا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ دراصل یہ ’حق گو‘ پروگرام اینکر ان محروموں کے لیے آواز اٹھائیں بھی تو کیسے، کہ اپنے ادارے کے سیٹھ کے خلاف بات کرنا، ملکی وزیراعظم کی عجب کرپشن کی غضب کہانی سنانے سے مشکل تر کاج ہے، اور یہ کام وہی انقلابی کرسکتا ہے، جسے اپنی ’نوکری‘ عزیز نہ ہو۔ یہ ’حق گو‘ پروگرام اینکر، اور ’حق گو‘ کالم نگار اُن اداروں کے خلاف بھی زبان نہیں کھول سکتے، جو ان کے اخبار، یا نیوز چینل کو اشتہار دیتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ٹیلے ویژن چینل، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ کوئی اپنے کلائنٹ کے خلاف پروگرام کرکے اپنی دُکان بڑھانے کا خطرہ کیوں مول لے۔ یہ ہوش مندی نہیں کہلائے گی، دیوانگی ہوگی۔

سنسر شپ کا ان لکھا دستور یہ ہے، کہ اخباروں اور نیوز چینلز پر، نہ عدلیہ کے خلاف جاتی کوئی بات کی جاسکتی ہے؛ نہ عسکری اداروں کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان لگایا جاسکتا ہے، ہاں جہاں کہیں ان اداروں پہ تنقید کا پہلو نکلے، اسے حکومت کی ناکامی کہ کر سارا ملبہ سیاست دانوں اور جمہوری نظام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ طے شدہ اصول ہیں، چاہے کوئی اس کا جتنا بھی انکار کرے۔ ان پروگرام اینکروں ان کالم نگاروں کو بارہ مسالوں کی چاٹ تیار کرنا ہو، تو چسکے کے لیے فن کاروں، سیاست دانوں کی نجی زندگی کے جھوٹ‌ سچ ہی کافی ہیں۔

بات شوبِز سے شروع ہوتے، صحافت کے کارزار تک جا پہنچی؛ گرچہ شوبِز اور جرنلزم میں فرق رہ نہیں گیا، بس اتنا کہ شوبِز والوں کے بارے میں سبھی جانتے ہیں، کہ وہ سچ جھوٹ‌ کی آمیزش سے کہانی سناتے ہیں، جب کہ صحافیوں کو سچ مان کے پڑھا، دیکھا اور سنا جاتا ہے۔

میں یہ سمجھا ہوں کہ آرٹ کا کوئی بھی شعبہ ہو، وہ ہوش مندوں کے لیے نہیں ہے۔ ہاں! اس شعبے میں روزگار کے خوب مواقع پیدا ہوجائیں، تو تمام ہوش مند دوڑے چلے آتے ہیں۔ کسی بھی فن کی ساکھ، کچھ کھسکے ہوئے، چند دیوانے سے لوگ ہوتے ہیں۔ یوں کہیے کہ سبھی فنون دیوانوں کے لیے خاص ہیں، کہ فرزانے تو گل کھلنے پر دکھائی دیتے ہیں، تا کہ پھول چن کے اپنے سینے کا تمغہ کریں۔ گلستان پہ خزاں چھا جائے، تو یہ اسے خارزار بتاتے ہیں۔ دودھ پینے والا مجنوں، عشق پیشہ نہیں ہوتا۔

”شوبِز ہو یا صحافت؛ ان کی ساکھ بنانے کے لیے فرزانوں کی نہیں دیوانوں کی ضرورت ہے۔“ اتنی سی بات کہنے کے لیے اتنے نقش و نگار بنانا، کوئی ہم صورت گروں سے سیکھے۔

پس نوشت: اس تحریر کو پارلیمان پہ لعنت بھیجنے والوں کے بیان سے ملا کے نہ پڑھا جائے، ان سے مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran