موت سے پہلے چند سوالات


 \"raziسابق پولیس کانسٹیبل ممتاز قادری کے چہلم کے بعد اسلام آباد جمع ہو نے والے عاشقان رسولﷺ کا دھرنا ابھی تک جاری ہے۔ اب تک جو دو اہم مطالبات سامنے آئے ان میں سے ایک تو یہی ہے کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے جب کہ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ممتازقادری کو شہید کا درجہ دیا جائے۔ یقیناً کچھ اورمطالبات بھی ہوں گے اوراسی نوعیت کے ہوں گے لیکن ہم ان سے اب تک لاعلم ہیں۔ جہاں تک ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کامطالبہ ہے اس بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وطن عزیزمیں بم دھماکوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کے ہاتھ پاﺅں تو پہلے ہی کاٹے جا رہے ہیں ایسے میں بھلا اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ رہا ممتازقادری کو شہید کا درجہ دینا تو اس بارے میں ہماری اپنی رائے یہ ہے کہ یہ مطالبہ بدنیتی پرمبنی ہے اوراس سے ظاہرصرف یہ ہوتا ہے کہ مطالبہ کرنے والے خود بھی ممتازقادری کو شاید شہید نہیں سمجھتے اور اسی لیے اسے سرکاری طورپر شہید کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں۔ یہ عجیب طرح کا تضاد ہے جس کو سمجھنا اور سمجھانا کم ازکم ہمارے جیسے کم علم کے بس کا روگ نہیں۔ چند سوالات ایسے ضرور ہیں جن پر ہم سب کو اپنی موت سے پہلے ضرورغور کر لینا چاہیے۔۔

پہلا سوال تو یہی ہے کہ چہلم کے بعد جب ہزاروں افراد پارلیمنٹ ہاﺅس تک پہنچنے کے لئے 20سے 22 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر رہے تھے تو اس دوران انہیں ر وکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ کون سی ایسی قوت تھی جو ان کے پارلیمنٹ تک پہنچنے کا راستہ ہموارکر رہی تھی تا کہ حکومت کو کسی نئی آزمائش میں ڈالا جا سکے۔ گزشتہ روز بھی ہم نے بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی فوجی افسر کاحوالہ دیا تھا۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کیا بھارتی فوجی افسر واقعی اس روز گرفتار ہوا جس روز اس کی گرفتاری کی خبریں نشر کی گئیں۔ کیا ایرانی صدر کی پاکستان آمد سے صرف ایک روزقبل اس کی گرفتاری کی خبر نشرہونا محض ایک اتفاق ہے یا سوچا سمجھا سکرپٹ؟ پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ جو احتجاج کیا گیا اور ایران پر پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے جوالزامات عائد کیے گئے انہوں نے ایرانی صدرکے اس اہم دورے کو غیراہم بنا دیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید ہوا ملی اور مستقبل میں گیس پائپ لائن کے حوالے سے ان ممالک کے درمیان اگر کوئی پیش رفت ہونا بھی تھی تو سردست اس کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ ان دونوں ممالک ہی نہیں اس قسم کی الزام تراشی کے نتیجے میں اندرون ملک بھی ہم آہنگی کی فضا مزید ناہموارہوئی ہے۔

اب آیئے آخری سوال کی جانب اوروہ سوال یہ ہے کہ گزشتہ روز خودکش دھماکے کے مبینہ ملزم کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں ان سے ظاہرہوتا ہے کہ اس کا لاہور کے ایک مدرسے سے تعلق تھا۔ اس سے پہلے بھی بیشتر خودکش بمباروں کے قدموں کے نشان کسی نہ کسی مدرسے تک ہی جاتے ہیں۔ ان مدرسوں کے فنڈز کہاں سے آتے ہیں اورکون سا برادر اسلامی ملک ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس بارے میں ہم اورآپ بخوبی آگاہ ہیں۔ جس سرعت کے ساتھ ایران سے احتجاج کیا گیا اور ایران پر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کیا گیا کیا اسی پھرتی کے ساتھ ہم سعودی عرب سے بھی احتجاج کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب ہمیں اور آپ کو کم ازکم اپنی زندگیوں میں تو نہیں ملے گا۔ ہم نے تو بس یہی دیکھنا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد جعلی آپریشن شروع ہو جاتے ہیں اور وزیراعظم قوم سے خطاب بھی کرتے ہیں ،اس قوم سے جو قوم ہی نہیں ہے۔ غنیمت تو بس یہی ہے کہ ابھی تک ہمارے اور آپ کے ہاتھ پاﺅں سلامت ہیں ۔ ابھی ہماری انتڑیاں باہر نہیں آئیں۔ چہرے نہیں جھلسے۔ ابھی ہم سوچنے کے قابل ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس معاشرے میں اب بلند آواز کے ساتھ سوچنا بھی توممکن نہیں رہا۔ ہم ذہنی طور پر موت کا شکار ہو چکے۔ بس اب ہمیں اپنی جسمانی موت کا انتظار ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments