سر سید کی بگیا میں ایک دن (پہلا حصہ)


یہ علی گڑھ کا میرا کوئی پہلا سفر نہیں تھا۔ اس سے میری مراد علی گڑھ شہر نہیں بلکہ سرسید احمد خاں کے خوابوں کا مرکز مدرسۃ العلوم یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ اس لحاظ سے یہ علی گڑھ کا میرا پہلا دورہ تھا کیوں کہ اس بارمیں کسی کے ساتھ نہیں، بلکہ تن تنہا، آزاد اور اپنی مرضی کا مالک تھا۔ اس سے قبل دو مرتبہ علی گڑھ جانا ہوا ،ایک مرتبہ استاذ محترم ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے ساتھ اور دوسری بار ایک تحقیقی کام کے غرض سے۔ اس وقت کام بہت اور وقت کافی کم تھا، اس لئے سرسید کی بگیا میں’تاکا جھانکی’ بھی نہیں کر سکا۔ ادھرکام ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ وقت نے اپنے ‘خاتمے’ کا بگل بجا دیا۔ اس طرح مجھے ادھورا ہی واپس آنا پڑا۔

دوسری بارعلی گڑھ جانے کا اتفاق استاذ محترم ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (معروف دانشور، قلم کار، صحافی مترجم اور دہلی اقلیتی کمیشن کے موجودہ چیئرمین) کے ساتھ ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے ہوا۔ اس شام ہم ایک ساتھ علی گڑھ پہنچے۔ سورج تو کب کا جاچکا تھا۔ جب تک ہم سیمینار ہال میں پہنچے شام کا جھٹپٹا رات کا لبادہ اوڑھ رہا تھا۔ مہمان خانے میں قیام و طعام کا معقول انتظام کیا گیا تھا، مگروقت تو اس بار بھی ہماری مٹھی سے پھسلا جارہا تھا۔ وہاں تھوڑی دیر رک کر اسٹریچی ہال پہنچے جہاں سیمینارہونا تھا، بلکہ ہورہا تھا۔ اسٹریچی ہال کو میں مولانا محمد علی جوہر کے حوالے سے جانتا ہوں، جو میری پسندیدہ شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اپنی قائدانہ زندگی کا آغازاسی ہال سے تقریر کرتے ہوئے کیا تھا اور تب سے میرے دل میں بھی اسٹریچی ہال کے ڈائس سے تقریر کرنے کی خواہش چٹکیاں لیتی رہی ہے۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ جس نے اسٹریچی ہال میں تقریرکرلی، وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں اورکسی بھی مجمع سے خطاب کر سکتا ہے۔ مگر افسوس! ابھی تک قسمت نے یاوری نہیں کی ہے اور صرف اسی ایک تمنا کے خون ہونے کا غم کیا منایا جائے کہ خونِ تمنا کی داستان بہت طویل ہے۔ میں اپنے دوست کوثر عثمان سے اپنی اس تمنا کا اظہار کررہا تھا تواستاذ محترم نے میری بات سن لی اور کہنے لگے؛ جاؤ! آج ہی اپنی حسرت پوری کرلو، میں اپنی جگہ تمھیں دے دیتا ہوں۔ مگر میں نے ادب کے ساتھ اس پیش کش کوقبول کرنے سے انکار کر دیا، میں نے سوچا کہ یہ تو مانگے کا اجالا ہوگا، اگرآج میں نے اسٹریچی ہال میں تقریر کر بھی لی، تو دل میں ہمیشہ یہ پھانس اٹکی رہے گی کہ میں نے اپنے بل بوتے پر یہ اعزاز حاصل نہیں کیا اور وہ اعزاز اور کام یابی ہی کیا جس میں اپنا ریاض اورخونِ جگر شامل نہ ہو۔ خیر، اسٹیج نہیں نصیب ہواتوکیا، اسٹریچی ہال کے سامعین کی فہرست میں تومیں نے اپنا نام درج کروا ہی لیا۔ سیمینار ختم ہوا اور ہم الٹے پاؤں واپس سرسید کی بگیا سے دہلی آگئے۔

راستہ بھر اس مرد درویش کے حدود حرم کے سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔ اللہ، اللہ، کیا شخص تھا وہ؟ دو ادوار، اس ایک شخص میں آکر ضم ہوجاتے ہیں؛ تہذیبوں کے تصادم کے اس دور میں سرسید کی معنویت کی ایک اہم جہت یہ بھی ہے کہ وہ تصادم یا مناظرے کے بہ جاے مکالمہ اور تہذیبی لین دین کے عَلم بردار تھے۔

میں نے سوچا کہ اس لمبی داڑھی اور اوورکوٹ میں ملبوس پیکر کی ‘شخصیت اور کارنامے’ کا جشن منانے والے ہم جیسے بونے لوگ اس کے کارناموں کا ادراک بھی کتنی نچلی سطح پر آ کر کرتے ہیں۔ جس طرح ظاہر بیں نگاہیں اس ‘جوان بوڑھے’ کے ظاہری ڈیل ڈول اور شخصی وجاہت پر جاکر اٹک جاتی ہیں، ویسے ہی ہم میں سے دانش وری کا زعم پالنے والے بھی اس کے ذہن رسا، اس کے طرز فکر اوراس کے تخیل کی پرواز کو چھو نہیں سکتے۔ اور ہاں، اس کی سب سے بڑی دولت، اس کے دل درد مند کو ہم تو کب کا فراموش کر چکے ہیں۔ جس کی حرارت نے نہ جانے کتنے دلوں کو گرمادیا اورچراغ سے چراغ روشن ہوتے رہے۔ مجھے ان سب کا دھیان آیا، شمع کی مرکزیت تو مسلم ہے، پروانوں کے عشق کا بانکپن اور کج کلاہی بھی تو غضب کی تھی۔ کار ایک دھچکے سے رکی اورمیں اپنے خیالوں کی دنیا سے لوٹ آیا۔ ہم دہلی پہنچ چکے تھے۔

جب آپ کسی کے ساتھ کہیں جاتے ہیں۔ خصوصا بڑوں کے ساتھ، تو آپ بہت ساری بندشوں میں بندھ جاتے ہیں۔ آپ چاہ کر بھی بہت کچھ نہیں کرسکتے، کسی کے ساتھ بے تکلفی سے بات نہیں کرسکتے، کھل کر ہنس نہیں سکتے اور آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار بھی نہیں کرسکتے کہ مبادا ہماری یہ حرکت سوئے ادب نہ تصور کرلی جاے اور ہم جیسے نچلے نہ بیٹھنے والے کچھ عرصے کو مصنوعی زندگی جینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہاں، بڑوں کے ساتھ کہیں جائیں تو ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ بعض لوگ سفر میں سونا، کتاب کا مطالعہ کرنا یا پھر شہروں، گلیوں، کوچوں، سڑکوں، جنگلوں اورآبادیوں کا مشاہدہ کرنا پسند کرتے ہیں۔

مجھے بھی یہ چیزیں پسند ہیں، مگر اس کے علاوہ مجھے سفر میں باتیں کرنا یا کسی کے تجربات سے محظوظ ہونا اچھا لگتا ہے، مگر ایسے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں۔ تاہم میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اپنے کئی بزرگوں کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔

یہ سفر بھی ایک تعلیمی اور تحقیقی سفر تھا۔ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشہورزمانہ ‘برج کورس’ اور اس میں شامل طلبا و طالبات سے ملنے، باتیں کرنے، اس کورس کو سمجھنے اور اس کے روح و رواں، معروف دانش وَر اور صاحب قلم ڈاکٹر راشد شاذ صاحب سے تبادلہ خیال کے لیے حاضرہوا تھا۔ دعوت نامہ تو کئی مرتبہ ملتا رہا تھا لیکن ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ مصروفیت اور مجبوری ایسی پیش آجاتی کہ کئی اچھے پروگراموں میں چاہ کر بھی شریک نہیں ہو سکا تھا مگراس بار نرم گرم بستر اور صبح کی ٹھنڈک کوشکست دے کر میں سات بجے ابوالفضل انکلیو، اوکھلا سے علی گڑھ کی بس پکڑنے میں کام یاب ہو ہی گیا۔ گو اس کا اظہار تحصیل حاصل ہے مگرسند کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس میں کام یابی کا پورا پورا سہرا صرف مجھے جاتا ہے، کسی اور کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ سفر اچھا گزرے اس کے لیے میں نے پہلے ہی الجزیرہ کے پانچ سات دستاویزی فلمیں اور ٹیڈایکس سے اپنی دل چسپی کے کچھ ٹاکس موبائل میں محفوظ کر لیے تھے، ساتھ بیٹری بیک اپ اور موبائل فون دونوں کو رات ہی فل چارج کرلیا تاکہ یہ عین وقت پرداغِ مفارقت نہ دے بیٹھیں۔

دہلی سے علی گڑھ تقریبا ساڑھے چار گھنٹے کا سفر ہے۔ بیچ میں ایک جگہ بس رکی، مسافر تکان دور کرنے کے لیے نیچے اترے، میں بھی ان کے ساتھ نیچے آ یا، چائے پی اور پھر اپنی جگہ آکر جم گیا۔ بس میں بیٹھے بیٹھے کب آنکھ لگی پتا ہی نہیں چلا۔ جب نیند ٹوٹی تو بس علی گڑھ پہنچ چکی تھی۔ اترتے ہی احمد فوزان کو جو برج کورس میں استاذ اور سیکرٹری کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، فون کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ ریسیو کرنے کے لیے وہاں پہلے ہی سے موجود ہیں۔ میں ان کے ساتھ، مرکز برائے فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند پہنچا۔ ‘برج کورس’ بھی اسی عمارت میں چلتا ہے۔ پہنچتے ہی فورا ناشتے وغیرہ کا انتظام کیا گیا۔

استقبالیہ میں ڈاکٹر محمد احمد ‘معاون رابطہ عامہ افسر برج کورس’ موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات بہت دل چسپ رہی، دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو رہی، جن میں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور مدارس زیادہ اہم تھے۔ ایک قلم کارکے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات نہیں ہوسکتی کہ کوئی اس کی تحریروں کو نہ صرف پسند کرے بلکہ ان کے متعلق سوالات کرے اور ان میں بہتری کے لیے مشورے بھی دے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر احمد نہ صرف یہ کہ میری تحریریں شوق سے پڑھتے ہیں، بلکہ ان میں زیر بحث موضوعات پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ یہ چیزیں جہاں مجھے حوصلہ دیتی ہیں، وہیں ذمہ داری کا بھی احساس دلاتی ہیں۔

ڈاکٹر راشد شاذ صاحب نے صبح کا وقت دیا تھا اور میں وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا، لیکن جب میں پہنچا تو وہ کسی کام کے لیے کہیں اور نکل چکے تھے۔ ڈاکٹر احمد کے ساتھ ہماری بہت دیر تلک بات چیت رہی۔ دُپہر کا وقت ہو چلا تھا، انھیں گھر کے لیے بھی نکلنا تھا، میں بھی جلد کام نمٹا کر دلی واپس آنا چاہتا تھا کہ اس کی یادیں ان چند گھنٹوں کے فراق ہی میں تڑپانے لگی تھیں۔ احمد فوزان بھی کسی کام سے کہیں جارہے تھے تو انھوں نے مجھے گیسٹ ہاوس میں آرام کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ میں کون سا تھکا ماندہ تھا کہ آرام کرتا، سو میں اکیلے ہی کیمپس میں چہل قدمی کرنے باہر نکل پڑا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی چہار دیواری میں داخل ہوتے ہی تاریخ و ثقافت، ادب وتہذیب، دانش و بینش اور تعلیم و تفکر کا ایک جہان معنی ذہن کے پردے پر نمودار ہوجاتا ہے۔ اس طلسم میں آنکھیں خیرہ، مگر دل روشن ہوئے بغیر نہیں رہتا، جگہ جگہ علم و ادب کی کرنیں بکھری نظر آتی ہیں، زرہ زرہ خلوص اور محبت کی داستان سرائی میں محو نظر آتا ہے۔

ابھی میں سڑک عبور کرکے چند قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک نعروں کی گونج سنائی دینے لگی۔ مجھے اقبال یاد آگئے جو طلبہ برادری سے شاکی تھے کہ ان کے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں، اوران کے لیے دعاگو بھی تھے کہ خدا انھیں کسی طوفاں سے آشنا کردے۔ نعروں کی آواز قریب آئی توان کے ساتھ نعرے لگانے والے بھی نمودار ہوئے۔ معلوم ہوا کہ طلبا یونین کا الیکشن قریب ہے۔ امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ ابھی ایک جماعت نہیں گزری تھی کہ دوسری جماعت نمودار ہو گئی اور متواتر کئی جماعتیں الگ الگ انداز میں نعرے لگاتے ہوئے نظر آئیں۔ انتخابی جماعتوں کا یہ ہجوم اسٹوڈنٹس یونین ہال کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس میں کوئی جماعت انتہائی سنجیدہ تھی’ تو کوئی ناشایستہ اور بے ہنگم انداز میں دھماچوکڑی مچاتی اور شور کرتی آگے بڑھ رہی تھی۔ کسی نے اپنی بائک اور گاڑی کے سائلینسر کو کم کر دیا تھا، کہیں گاڑیوں کے دھویں اور ہارن سے فضا مکدر ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے تمام لیڈر شیروانی اور ٹوپی میں ملبوس تھے، جو لکھنوی انداز میں انتہائی متانت کے ساتھ سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ جگہ جگہ لال، پیلے، نیلے، سفید اورمختلف رنگوں کے انتخابی پرزے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ ​​

جاری ہے

سرسید کی بگیا میں ایک دن (آخری حصہ)

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah