لوگ تو پارلیمان کو گالیاں دیتے رہیں گے


مال روڈ لاہور پر جلسے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور شیخ رشید کے جوش خطابت میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کے بعد پارلیمینٹ کے اندر اور باہر دونوں رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جس پارلیمنیٹ کا وہ خود حصہ ہیں، جس سے وہ تنخواہ لیتے ہیں، اسے گالی دینا اپنے آپ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ شیخ رشید سے شاید لوگ اتنے خفا نہ ہوں کیوں کہ وہ اکثر و بیشتر اسی طرح کے چٹکلے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر چھوڑتے رہتے ہیں جس کو لوگ سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر عمران خان صاحب سے اب لوگ اس طرح کے الفاظ کی توقع نہیں کر رہے تھے کیوں کہ آنے والے انتخابات میں عمران خان اسی پارلیمینٹ کے وزیر اعظم بننے کے خواہشمند ہیں۔

کبھی کبھی جوش خطابت میں لوگ کافی کچھ بول جاتے ہیں مگر عمران خان صاحب ابھی تک اپنی کہی ہوئی بات پر قائم ہیں اور اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس پارلیمنٹ پر اس لیے لعن طعن کر رہے ہیں کیوں کہ اس پارلیمینٹ نے ایک مجرم کو بچانے کے لیے قانوں سازی کی ہے۔ ان کا اشارہ میاں نواز شریف کی طرف ہے کہ ان کی جماعت نے سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد پارلیمنیٹ میں قانوں سازی کر کے انہیں مسلم لیگ ن کا سربراہ بنایا۔ بظاہر تو نہیں لگتا کہ عمران خان صاحب اپنے کہی ہوئی بات پر معافی مانگیں گے یا پھر شرمندگی کا اظہار کریں گے۔ مگر عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خان صاحب اپنی کہی ہوئی بات پر معافی بھی مانگتے ہیں اور اپنا بیان بھی بدلتے ہیں۔ عمران خان سے لوگ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پڑھے لکھے انسان ہیں جنہوں نے پوری دنیا دیکھی ہوئی ہے اور وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جو ملک میں تبدیلی کی بات کرتی ہے۔ اگر وہ بھی اس مقدس ایوان کو گالی دیں گے تو پھر شیخ رشید اور ان میں کیا فرق رہے گا؟

یہ و ہی پارلیمینٹ ہے جس میں مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف نے پاکستان تحریک انصاف کی شریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کا خطاب دیا تھا۔ سندھ اسمبلی کے اندر جو الفاظ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر امداد علی پتافی نے فگشنل لیگ کی نصرت سحر عباسی کے لیے کہے تھے وہ بھی سب کو یاد ہیں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے تو ووٹ پر پیشاب کر کے ساری حدیں پار کر لی تھیں۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے وزیر شاہ فرمان نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں جو الفاظ پاکستان پیپلز پارٹی کی نگہت اورکزئی کے لیے استعمال کیے تھے اس پر بھی آج تک خیبر پختوںخوا اسمبلی شرمندہ ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام ف کے مولانا واسع نے جعفر مندوخیل کو جوتا دے مارا۔ سرور موسیٰ خیل اور عین اللہ شمس نے خواتین کا بھی لحاظ نا کرتے ہوئے غلیظ گالیاں دے کر بلوچستان اسمبلی کو چار چاند لگائے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی شیخ علاؤالدین کا خاتون ممبر کے خلاف نا زیبا الفاظ کہنا اور ایم پی اے میاں طاہر کی پنجاب اسمبلی کا سیکورٹی عملے کو گالیاں دینا بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

گالیاں اور غیر پارلیمانی زبان کا استعمال اکثر پارلیمنیٹرین اپنی روز مرہ کی زندگیوں میں عام پاکستانیوں کی طرح سڑک، محلے اور آفس میں کرتے رہتے ہیں مگر پکڑا وہ جاتا ہے جس کے الفاظ آن ایئر ہو جاتے ہیں۔ جس طرف جنسی ہراسانی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کی تجاویز زیر غور ہیں کہ گھر سے لیکر نصاب اور معاشرے میں آگاہی پیدا کر کے ہم جنسی ہراسائی کو ختم کر سکتے ہیں اسی طرح بد اخلاقی کے خاتمے کے لیے اخلاقیات کے مضموں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی بد اخلاقی کو روک تھام کی جا سکے۔ جہاں تک پارلیمنیٹ کی توقیر اور غیر پارلیمانی زبان کے استعمال کا تعلق ہے،  اس حوالے سے یقیناً پارلیمینٹ کے اندر اور باہر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم جمہوریت اور پارلیمینٹ کے حقیقی معنی سمجھ پائیں اور جموہریت کے ثمرات کو عوام تک پہنچا سکیں ورنہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں جمہوریت اور پارلیمان کو گالیاں دیتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).