یہ ہار سرفراز کی ٹیم کی نہیں ہے


کرکٹ

بھارت کی ٹیم ان دنوں جنوبی افریقہ کے دورے پہ ہے۔ دنیا کی نمبر ون ٹیسٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی نے دورے کے آغاز پہ وارم اپ میچ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ کلب لیول کی کسی ٹیم سے کھیل کر ہم میں کون سا نکھار آ جائے گا۔ اس کی بجائے انھوں نے اپنے ہی ٹریننگ سیشنز کو ترجیح دی۔

ابھی سیریز کا ایک ٹیسٹ باقی ہے، اور بھارت پہلے دونوں میچ ہار چکا ہے۔

2016 کے ستمبر میں جب مصباح نے ٹیسٹ کا میس وصول کیا تھا، تو اس کی بنیاد یو اے ای کے کسی میدان کی فتح نہیں تھی، بلکہ لارڈز اور اوول میں انگلینڈ کے خلاف فتوحات تھیں۔

پاکستان کے دورہ نیوزی لینڈ کے بارے میں مزید پڑھیے

نیوزی لینڈ کا ون ڈے سیریز میں وائٹ واش

’جب پاکستانی بیٹنگ پہ احتیاط طاری ہوئی‘

اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ وغیرہ

’یہ امتحاں سرفراز کا نہیں ہے‘

مکی آرتھر نے مصباح سے پوچھا کہ اس نمبر ون پوزیشن پہ موجود رہنے کے لیے کیا کرنا ہو گا، مصباح کا کہنا تھا کہ یہ بہت آسان ہے، ہم آئندہ ہر میچ جیتتے جائیں تو ہم ہی نمبر ون رہیں گے۔

اس کے ایک ہی ماہ بعد نمبر ون ٹیم آٹھویں نمبر کی ٹیم سے ٹیسٹ ہار گئی۔ پھر نیوزی لینڈ سے دونوں ٹیسٹ ہارے۔ پھر آسٹریلیا جا کر کلین سویپ ہو گئی۔

بظاہر یہ عجب مخمصہ سا تھا کہ اگست میں انگلینڈ کو ہوم گراؤنڈز پر ہرانے والی ٹیم کو اکتوبر تک ایسا کیا ہو گیا کہ شکست کا سلسلہ تھمنے کو ہی نہیں آیا۔ لیکن جب ہوم ورک کی جانب دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کرکٹ کسی سے نا انصافی نہیں کرتی۔

ایشین ٹیمیں جب تیز یا گرین وکٹوں کے دورے کے لیے نکلتی ہیں تو وہ پریکٹس کے لیے سلیب استعمال کرتی ہیں تاکہ پلیئر کے ریفلیکسز متوقع اونچے باونس سے نمٹنے کو تیار ہو پائیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ 2016 کے دورہ نیوزی لینڈ پہ پہلے ٹیسٹ کے آغاز تک ٹیم پاکستان کے پاس پریکٹس کے لیے سلیب دستیاب نہیں تھی۔

کرکٹ

اور پھر زوال کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں نمبر ون ٹیسٹ ٹیم مہینوں نہیں، ہفتوں کے اندر ہی بھیگی بلی بن گئی۔

بالکل ایسا ہی حال اس وقت سرفراز کی ٹیم کا ہے۔ چھ ماہ پہلے ہی چیمپیئنز ٹرافی جیتی۔ اس کے بعد ورلڈ الیون کو ہرایا۔ سری لنکا کو مختصر فارمیٹ میں دو بار کلین سویپ کیا۔ اس دورے پہ روانہ ہونے سے قبل یہ ٹیم اپنی دھاک بٹھا چکی تھی۔ قنوطیت کے ماروں کو بھی بھلے جیت کی امید نہ سہی، یہ یقین ضرور تھا کہ کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔

لیکن اس وقت چیمپیئنز ٹرافی کا فاتح پاکستان پانچ ون ڈے کی سیریز میں کلین سویپ ہو چکا ہے۔

کرکٹ جرنلزم میں شکست کا تجزیہ کرنا سب سے آسان کام ہے۔ پہلا ہدف کپتان کو بنایا جاتا ہے۔ ایک آدھ سینیئر بولر اور بیٹسمین بھی ساتھ ہی لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ پھر بھی تشفی نہ ہو تو کوچ پہ برس لیجیے۔ افاقہ نہ ہو تو سلیکشن کمیٹی کے بخیے ادھیڑ ڈالیے۔ اس کے بعد بھی کچھ بھڑاس رہ گئی ہو تو چیئرمین بورڈ کا گھیرا تنگ کر لیجیے۔

کرکٹ

سوال یہ ہے کہ، فکسنگ کے چند کیسز کو چھوڑ کر، دنیا کا کون سا بیٹسمین ہارنے کے لیے کھیلتا ہے؟ کون سا بولر چاہتا ہے کہ اس کی ٹیم ناکام ہو جائے؟ کون سا کپتان جیتنا نہیں چاہتا؟ کیا اظہر علی اپنی خوشی سے فلاپ ہوئے؟ کیا عامر نے جان بوجھ کر وکٹیں نہیں لیں؟ کیا سرفراز نے جیت کے لیے سر دھڑ کی بازی نہیں لگائی؟

تو پھر مسئلہ کہاں تھا؟

پچھلے سال آسٹریلیا کو چار ٹیسٹ میچز کی سیریز کے لیے بھارت کا دورہ کرنا تھا۔ دورے سے پہلے ایئن چیپل نے پیشگوئی کی تھی کہ آسٹریلیا یہ سیریز چار صفر سے ہار جائے گا۔ لیکن سمتھ کی ٹیم نے پہلا ہی ٹیسٹ جیت کر دںیا کو حیران کر دیا۔ یہی نہیں، وہ ایک اور میچ ڈرا کرنے میں بھی کامیاب رہے، اور بھارت صرف دو میچ جیت پایا۔

اس میں تحیر اس بات سے ہے کہ چیپل سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ سمتھ کی ٹیم کیا کر سکتی ہے۔ تو پھر چیپل ہی کی توقعات کیسے شکست کھا گئیں؟

چیپل کے خدشات اس لیے غلط ثابت ہو گئے کہ بھارت جانے سے پہلے آسٹریلیا نے دوبئی میں ایک طویل کنڈیشننگ کیمپ لگایا۔ پندرہ روز تک اپنے اعصاب کو ایشیائی کنڈیشنز سے ہم آہنگ کیا، اور پھر بھارت جا کر بھی وارم اپ میچ کھیلے۔ تب کہیں جا کر ایسا ہوا کہ سٹیو او کیف نے سیریز کے پہلے ہی روز آٹھ وکٹیں لے لیں۔

اسی طرح سے پاکستان جب انگلینڈ کے دورے پہ دو ٹیسٹ جیتا، تو اس کے پیچھے بھی ایبٹ آباد میں دو ماہ کی وہ ٹریننگ تھی جو بعد ازاں مصباح کے پش اپس اور سلیوٹ کی بنیاد بنی۔

کرکٹ

لیکن جب بنا ہوم ورک، کوئی ٹیم نامانوس کنڈیشنز میں اترتی ہے تو پھر چاہے وہ وراٹ کوہلی کی نمبر ون سائیڈ ہو یا سرفراز کی ورلڈ چیمپئین ٹیم، شکست کے سائے بہت پہلے سے اس کے تعاقب میں ہوتے ہیں۔ دوسرا میچ ہارنے کے بعد بیٹنگ کوچ کہتے سنائی دیے کہ بلے بازوں کو باونس سے نمٹنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ بھئی یہ تو ہم بھی دیکھ رہے تھے، آپ بتایے آپ نے اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے کیا کچھ کیا؟

تیسرے میچ کے بعد پھر بیٹنگ کوچ بول اٹھے کہ بلاکنگ اور سلاگنگ کے درمیان توازن نہیں پیدا ہو پا رہا۔ مزید برآں یہ دھمکی بھی سنائی دی کہ ایسے پلیئر کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں۔ اگلے میچ کی الیون دیکھ کر پتا بھی چل گیا کہ اشارہ کس کی طرف تھا، لیکن پھر بھی جیت پاکستان کا نصیب نہ ہو سکی۔

یہ کلین سویپ اگر صرف سرفراز کی ٹیم کو ہوا ہے تو ان سب کا کیا سٹیٹس ہے جو چیمپیئنز ٹرافی کی فتح کا کریڈٹ بٹورنے میں سرفراز سے بھی پیش پیش تھے؟ کیا پچھلے دورہ نیوزی لینڈ پہ بھی بولنگ کوچ اظہر محمود ہی نہیں تھے؟ کیا تب بھی بیٹنگ کوچ فلاور ہی نہیں تھے؟ کیا تب بھی ہیڈ کوچ مکی آرتھر ہی نہیں تھے؟ کیا تب بھی چیف سلیکٹر انضمام الحق ہی نہیں تھے جنہوں نے اس بار ایسی ٹیم بھیجی کہ پانچ میچوں کی سیریز میں چار بار اوپننگ جوڑی بدلی، حتی کہ فہیم اشرف اور عمر امین سے بھی اوپننگ کروانا پڑ گئی۔

پانچوں میچوں میں نئے گیند سے اٹیک مختلف لوگوں نے کیا۔

دنیا کا کوئی بھی کپتان میچ ہارنے کے لیے میدان میں نہیں اترتا۔ وہ اپنی صلاحیتوں سے شکست نہیں کھاتا، ان غلط فیصلوں سے ہار جاتا ہے جو اس کے لیے ناگزیر ٹھہرتے ہیں۔ سرفراز بھی انہی فیصلوں سے ہارے ہیں جن کے انتخاب میں ان کا دخل نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp