ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا دیا گیا


پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور صوبائی وزیر داخلہ کو تحقیقات کے لیے کہا تھا جس کے بعد صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور صوبائی وزیر داخلہ کو تحقیقات کے لیے کہا تھا جس کے بعد صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقاتی کمیٹی نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اس نوجوان کو عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔

تاہم سوشل میڈیا پر نقیب اللہ محسود کے قتل پر بحث شروع ہو گئی۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ بظاہر نقیب اللہ محسود کا کسی شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں تھا اور وہ ماڈلنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

نقیب اللہ کی ’پولیس مقابلے میں ہلاکت‘ کا ازخود نوٹس

’کاش نقیب اللہ کا نام احسان اللہ احسان ہوتا‘

’راؤ انوار طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر‘

پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور صوبائی وزیر داخلہ کو تحقیقات کے لیے کہا تھا جس کے بعد صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

محکمہِ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق نقیب اللہ محسود کے خلاف راؤ انوار کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کے چیف جسٹس نے کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے پر سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس سے سات دن میں رپورٹ طلب کی ہے۔

نقیب اللہ کے کزن نور رحمان نے ڈی آئی خان سے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ‘نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ میں شیر آغا ہوٹل سے دو اور تین جنوری کی شب سادہ کپڑوں میں اہلکاروں نے اٹھایا تھا، جس کے بارے میں انھیں چار روز کے بعد معلوم ہوا۔’

ادھر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ ‘نقیب اللہ نے نسیم اللہ کے نام سے شناختی کارڈ بنا رکھا تھا اور وہ مطلوب ملزم تھا جو ڈیرہ اسماعیل خان سے آکر حب میں رہتا تھا۔’

ان کا کہنا ہے کہ ‘اس نے نسیم اللہ کے نام سے کیوں شناختی کارڈ بنایا تھا اور جن جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا ہے وہ ان کے ساتھ کیا کرنے آیا تھا؟’

نقیب اللہ کے اہلخانہ کے مطابق مقتول کے تین بچے ہیں جن کی عمریں دو سے نو سال کے درمیان ہیں اور یہ بچے ان دنوں اپنے ننھیال ڈی آئی خان آئے ہوئے تھے۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ ‘نقیب اللہ کراچی میں ابو الحسن اصفہانی روڈ پر کپڑے کی دکان میں 70 یا 80 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا۔ یہ پیسے کہاں سے آئے جبکہ رشتے دار کہتے ہیں کہ وہ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ فیکٹری میں آخر کتنی تنخواہ ملتی تھی جس میں سے وہ فیملی کو بھی دیتا تھا اور جمع بھی کرتا تھا؟’

نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف کراچی، پشاور سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔

کراچی میں اس سے قبل بھی ماورائے عدالت قتل کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سالہ 146 افراد مبینہ طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 140 ہلاکتوں کے پولیس مقابلوں میں دعوے کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp