جان بچانی ہے تو اپنا فرقہ بدل لیں


میں کون ہوں؟

میں ایک مشنری اسپتال میں پیدا ہوا تھا۔ میرے کان میں اذان دی گئی تھی اور مسلمانی کی رسم بھی تیسرے ہی دن ہو گئی تھی۔ میری امی نے مجھے بتایا تھا کہ میں نے بہت سے بچوں کی طرح پہلا لفظ جو بولا تھا وہ اللہ تھا۔ دو سال کی عمر میں مجھے کلمہ یاد کروا دیا گیا تھا۔ میرا عقیقہ بھی ہوا تھا۔ پورے دو بکرے حلال ہوئے تھے۔ پاکستان کے دیگر بچوں کی طرح چڑی روزے بھی رکھے نماز بھی یاد کی۔ بارہ ربیع الاول کو میلاد بھی منائے اور دس محرم کی شام غریباں میں امام حسین کا غم بھی منایا۔ میں نے قرآن بھی پڑھا ہے۔ مجھےاحادیث بھی یاد ہیں۔ اسلامی تاریخ بھی پڑھ رکھی ہے۔ میرے والدین نے ہمیشہ حلال لقمہ کھانے اور بنی نوع انسان سے حسن سلوک کی تربیت دی۔ پھر بھی مجھے اپنی شناخت کا مسئلہ ہے۔

1981 کا برس تھا۔ اس وقت میں پانچ برس کا تھا۔ نیا نیا اسکول جانا شروع کیا تھا۔ محرم کا مہینہ تھا۔ کراچی شہر میں شیعہ سنی فسادات پھوٹ پڑے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہماری اسکول بس کے ڈرائیور نے اس وقت ہمیں کہا تھا کہ اگر کوئی تم لوگوں سے پوچھے کہ تم لوگ کون ہو تو کہنا کہ ہم سنی ہیں ورنہ وہ تم لوگوں کو مار دیں گے۔ اس وقت ہم سب بچے ان باتوں کو نہیں سمجھتے تھے مگر اتنا ضرور سمجھ میں آ گیا تھا کہ اس وقت زندہ رہنے کے لیے سنی ہونا بہت ضروری تھا۔ یہ فرقہ واریت سے میرا پہلا تعارف تھا۔

کچھ برس گزرے تو معلوم ہوا کہ میں سنی نہیں ہوں۔ ہمارا کالج ٹرپ حیاتیاتی و مطالعاتی دورے پر جا رہا تھا۔ یہ اور بات کہ وہ دورہ نہ حیاتیاتی ثابت ہوا اور نہ ہی مطالعاتی۔ اتفاق سے وہ بھی محرم کا ہی مہینہ تھا۔ اور عین دس محرم والے دن ہمارے اساتذہ کرام ہمیں منوڑہ کی سیر کو لے گئے۔ واپسی پر معلوم ہوا کہ سڑک بند ہے۔ اس زمانے میں دس محرم کا جلوس نیٹی جیٹی کے پل پر اختتام پذیر ہوا کرتا تھا اور سمندر میں تعزیے ٹھنڈے کیے جاتے تھے۔ بعد میں وہاں پر اور بہت کچھ بھی ٹھنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ آج کل کا معلوم نہیں۔ ایک راہگیر نے کہا کہ نیٹی جیٹی کے پل کے متوازی ریل کا پل ہے۔ اس پر سے گزر جاؤ۔ کوئی پوچھے تو کہنا کہ ہم شیعہ ہیں۔ چناچہ ہم سب طالبعلموں نے یا حسین کے نعرے لگاتے ہوئے نیٹی جیٹی کا پل عبور کیا اور نیویں نیویں ہو کر اپنے ٹھکانے پر پہنچے۔ یہ فرقہ واریت سے میرا دوسرا تعارف تھا۔

اس وقت ایک بات سمجھ میں آئی کہ سنیوں میں سنی اور شیعوں میں شیعہ بن کر رہو تو محفوظ رہو گے۔ کچھ عرصہ اور گزرا۔ کراچی کے نشتر پارک میں سنیوں کے سنتوں بھرے عید میلاد النبی کےاجتماع میں بم دھماکا ہو گیا۔ ستر لوگ مر گئے۔ وہ بم دھماکا کسی شیعہ نے نہیں کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مارنے والے اور مرنے والے دونوں سنی تھے۔ مجھے اپنے خیال سے رجوع کرنا پڑا۔ سبق ملا کہ سنیوں میں صرف سنی بن کر رہنا بھی آپ کو مروا سکتا ہے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سنیوں میں بھی فرقے ہیں۔ اب فکر پڑی کہ کس فرقے کے ساتھ مل کر اپنی بقا کو فروغ دیا جائے۔

جب مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کچھ فرقے شیعوں کو کافر سمجھتے اور کہتے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ کچھ شیعہ فرقے بھی سنیوں کو کافر سمجھتے اور کہتے ہیں۔ کافر کافر کا کھیل ہر طرف کھیلا جا رہا تھا۔ میرا ذہن کسی کو کافر قبول نہیں کر رہا تھا۔ سب کلمہ گو تھے۔ سب ایک اللہ اور اس کے نبیﷺ پر ایمان رکھتے تھے اور سب ہی ایک دوسرے کو کافر سمجھتے تھے۔

میں پریشان ہو گیا کہ اب میں کس طرف اپنا شمار کروں کیوں کہ میں تو نہ سنیوں کو کافر سمجھ سکتا ہوں اور نہ ہی شیعوں کو کافر کہ سکتا ہوں۔ میری اس الجھن کو حل کیا ایک ٹرین کےسفر نے۔ ہم کچھ لڑکے بذریعہ ریل گاڑی کراچی کا سفر کر رہے تھے۔ ریل گاڑی میں مسافروں کا رش تھا۔ سیٹوں کا کال تھا۔ چناچہ ہم لڑکے بالے نوجوانی کے جوش میں بوگی کے دروازے کے پاس ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے۔ ساتھ ہی بیت الخلا تھا۔ وہاں لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ لوگوں کے آنے جانے سے تنگ آ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ جگہ تبدیل کی جائے۔ ہم لوگ اٹھے۔ اٹھتے اٹھتے میری نظر بیت الخلا کے دروازے کے اوپر والے حصے پر جا پڑی اور میرا برسوں کا الجھا ہوا مسئلہ ایک دم حل ہو گیا۔ بیت الخلا کے دروازے پر ایک مذہبی جماعت (اب کالعدم) کا اسٹیکر چسپاں تھا جس پر رنگین الفاظ میں یہ عبارت تحریر تھی۔ ”کافر کافر شیعہ کافر۔ جو نہ مانے وہ قادیانی“۔
ارے ہاں۔ وہ قادیانی سے یاد آیا کہ زینب کے قاتل شاید اب تک آزاد ہیں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad