جیسے عوام ویسے حکمران کا کلیہ کیا ہے؟


ہمارے ہاں آج کچھ لوگوں کو یہ بات پسند نہیں کہ حکمران دراصل عوام کا پرتو ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات بڑی حد تک درست ہے۔ تاریخی تجربہ یہ ہے کہ قوموں پر عموماً ویسے ہی حکمران مسلط ہوتے ہیں، جیسی قومیں خود ہوتی ہیں۔ ماضی میں میں شاید اس اصول پر کچھ اعتراض کیا جا سکتا ہو، مگر دنیا میں جوں جوں جمہوریت کا رواج بڑھتا گیا توں توں اس بات پر پر یقین بڑھتا گیا کہ ”جیسے عوام ویسے حکمران“ والی بات درست ہے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ جہاں سچی جمہوریت نہیں ہوتی وہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عوام پر جو حکمران مسلط ہوتے ہیں وہ سوچوں اور خیالات کے اعتبار سے عوام کے بالکل برعکس بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس کی ایک مثال مارشل لاز اور اس کے نتیجے میں اقتدار پر قابض ہونے والے حکمران رہے ہیں۔ مارشل لا کے علاوہ بھی پاکستان کے عوام بار بار اس تجربے سے گزرے ہیں، اس لیے وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عالمی سطح پر اس کی ایک بڑی مثال نازی جرمنی اور ہٹلر کی ہے۔

نازی جرمنی اور ہٹلر پوری دنیا میں میں دانشوروں اور اہل فلسفہ، اہل سیاست اور سوشل سائنسدانوں کے مطالعہ اور دلچسپی کا گہرا مرکز رہا ہے۔ یہ ایک ایسی پہلی تھی، جسے دنیا کے بڑے بڑے دماغوں نے بوجھنے کی کوشش کی۔ دنیا میں بڑے بڑے دانشور گزرے ہیں، جن کی توجہ کا نقطہ ماسکہ ہٹلر کی زندگی اور اس کے خیالات و نظریات رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں میں امریکہ کی اسٹریٹجک سروسز میں اس موضوع پر خصوصی طور پر سیل قائم ہوا جس میں ہٹلر پر بڑا کام ہوا۔

اس موضوع پر سٹریٹیجک سروس کے آفس نے ایک رپورٹ لکھی تھی، جس کا عنوان تھا ”ایڈورڈ ہٹلر کی نفسیات کا ایک جائزہ“ ۔ یہ ایک ڈراؤنی اور چشم کشا رپورٹ تھی۔ یہ لوگ ہٹلر کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے کہ اپنے کیریر کے ابتدائی دنوں میں ہٹلر کو دنیا نے تضحیک سے دیکھا۔ اس کو سنجیدہ لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن جوں جوں اس کی کامیابیوں کی فہرست بڑھتی گئی، لوگوں کی تضحیک بے یقینی میں تبدیل ہوتی گئی۔ ابتدا میں لوگوں کے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ اس ملک یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک پاگل آدمی یوں رہنما بن چکا تھا۔ اس کو پاگل آدمی کے خانے میں رکھنے کا جرمنوں کے لیے مطلب یہ تھا کہ ہم نے صرف یہ کرنا ہے کہ اس کو ہٹا دیا جائے اور اس کی جگہ ایک ہوش مند شخص کو بٹھا دیا جائے۔ اور ایسا کرنے سے ہماری یہ دنیا ایک بار پھر معمول کے مطابق کام کرنا شروع ہو جائے گی۔

لیکن اس رپورٹ کے ساتھ مرتبین نے ایک دلچسپ نوٹ بھی لکھا کہ لیڈر کے پاگل پن کا جائزہ لیتے ہوئے اس سماج کی ہوش مندی کو بھی دیکھنا چاہیے، جس نے اس طرح کا لیڈر پیدا کیا ہے، اسے ابھرنے دیا ہے، یا اس کو منتخب کیا ہے۔ اور یاد رکھنا چاہیے کہ لیڈر اور عوام کے درمیان ایک باہمی ربط موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ صرف رہنما کو ہٹانا اصل مرض پر توجہ دینے کے بجائے اس کی علامات کا علاج کرنے والی بات ہے۔ لیڈر کے پاگل پن پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کون لوگ ہیں، جو اس کی حمایت کر رہے ہیں، اور وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔

اسی طرح امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ اس کی ہار یا جیت سے قطع نظر کچھ لوگوں میں مقبول ہے۔ اس کے ارد گرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، جو اسے امریکی تاریخ کا عظیم ترین رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ اور وہ اس کی شخصیت اور کام پر پر ہونے والی ہر قسم کی تنقید کو اپنی ذات پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ وہ اس کی خوبیوں اور اس کی ”نایاب“ قسم کی خصوصیات کے بارے میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اس کے مخالفین کا خیال مختلف ہے۔ مخالف حلقوں میں اس کو ایک نرگسیت پسند شخص سمجھا جاتا ہے۔ ایک بے رحم پاپولسٹ آدمی کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا شخص جس کو حقائق قانون اخلاقیات اور انسانیت کی کوئی پروا نہیں ہے۔

جرمنی میں اس وقت ہٹلر کے بارے میں جو سوال اٹھایا گیا تھا وہ آج کے امریکا پر بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ مگر اس پرانے سوال کی جگہ یہ سوال زیادہ برمحل ہے کہ کیا ٹرمپ واقعی نیو لبرل ازم کا ایک چمکتا ہوا ستارا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے اس طبقے کا نمائندہ ہے، جس نے اس نام نہاد ”گولڈن ایج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ اس طبقے نے گولڈن ایج سے سے نیولبرل ازم تک کے سفر میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے سے امریکہ کی سیاسی معیشت کا جھکاؤ دائیں بازوں کی طرف ہوا ہے۔ اس جھکاؤ کی وجہ سے ملک میں بد ترین عدم مساوات پیدا ہوئی۔ مائیکرو اکنامک بحران پیدا ہوا۔ اور اس کے بطن سے سے سماجی اور معاشی بحران نے جنم لیا۔

اس صورتحال کے جواب میں امریکہ کے کاروباری طبقے نے جان بوجھ کر نیو لبرل ازم کا راستہ اختیار کیا تھا، تاکہ ایک طرف تو منافع کی شرح میں اضافہ کیا جائے، اور دوسری طرف مختلف طبقات کے درمیان طاقت کا توازن اپنے حق میں کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ لوگوں نے نیو لبرل ازم کو ایک طبقاتی منصوبہ قرار دیا جو 70 کی دہائی میں ایک سیاسی پریکٹس بن کر ابھرا تھا۔ اس کا مقصد اپنے طبقے کے مفاد میں دولت کی ایک سر نو تقسیم اور طاقت کے توازن کو سرمایہ دار طبقے کی طرف موڑنا تھا۔ اور وہ اس میں کامیاب رہے۔

اس مقصد کے پیچھے امریکہ کا ایک بہت بڑا دانشور طبقہ کھڑا ہو گیا تھا۔ لیکن وہ اپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کی نیو لبرل ازم کی پالیسیوں کو عوام کی کم ازکم حمایت کے بغیر نافذ کرنا مشکل تھا۔ لیکن امریکہ کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے ان پالیسیوں کی حمایت کی جو ایسی تجارتی طبقے کے حق میں تھی، اور جو امریکہ کی معاشی تنزلی سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔ یہ وہ تصور بیگانگی تھا، جس کی کارل مارکس نے برسوں پہلے پیشن گوئی کی تھی۔

مارکس کے تصور بیگانگی کا سرمایہ دار طبقے نے بھی تجربہ کیا کیونکہ ان کو محسوس ہوا کہ ہر چیز ان کے قابو میں نہیں ہے، بلکہ ان کے اردگرد کی چیزیں اس نظام کے قوانین کی پابند ہیں، جو کسی کو بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ طبقہ اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے مضبوط پوزیشن میں تھا۔ لیکن دوسری طرف ان کو ایک منظم مزدور تحریک، باہمی مسابقت، اپنی حاویت اور برتری کی سیاست کا سامنا تھا۔ چنانچہ ان کا اپنی دولت کے ذرائع پر اعتماد متزلزل ہونا شروع ہوا۔ اس طرح کی صورت حال ایک خاص قسم کی نفسیات جنم دیتی ہے، جس کا اظہار ہمیں آج کی امریکی سیاست میں ٹرمپ جیسے لیڈروں کی شکل میں نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).