امریکی حکومت نے’شٹ ڈاؤن‘ یا کام کرنا کیوں بند کیا؟
امریکہ سے باہر بیٹھ کر اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر امریکی حکومت شٹ ڈاؤن یا کام کرنا کیوں اور کیسے بند کر دیا تو یقیناً یہ سوچنے والی بات تو ہے۔
امریکی حکومت کے اخراجات کا بل جسے ‘اپروپریایشنز’ بھی کہتے ہیں، جمعہ انیس جنوری تک کانگرس سے پاس ہونے کے بعد صدر ٹرمپ کے دستخط سے منظور ہونا تھا۔ لیکن ایسا نہ ہونے کے باعث امریکی حکومت نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ امریکی حکومت ماضی میں بھی کئی بار اسی کے باعث کام کرنا بند کر چکی ہے۔
2013 میں صدر براک اباما کے دور حکومت میں سولہ دنوں کے لیے ایسا ہو چکا ہے۔ اس وقت ریپبلکن سینیٹرز نے مطالبہ کیا تھا کہ اخراجات کے بل میں ایسی شقیں ہوں جو کہ صدر اباما کے کیئر ایکٹ کی فنڈنگ یا تو کم کرے اور یا اس ایکٹ کے نفاذ کو مزید ملتوی کیا جائے۔
قومی یادگاریں اور پارک بند کر دیے گئے تھے اور لاکھوں حکومتی ملازمین کو بغیر تنخواہ جبری رخصت پر بھجوا دیا گیا۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ کینیڈا کے ساتھ 5525 میل لمبے بارڈر کی نگرانی کے لیے صرف ایک شخص مامور تھا۔
البتہ ایسا شٹ ڈاؤن پہلی بار ہوا ہے جب امریکی کانگرس اور وائٹ ہاؤس ایک پارٹی یعنی رہپبلیکن کے کنٹرول میں ہے۔
بدھ کو ریپبلیکن سٹریٹیجی واضح تھی کہ وہ کچھ اچھی اصلاحات شامل کروا کر ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ اپوزیشن سے عارضی فنڈنگ منظور کروا لیں۔ پھر ڈیموکریٹس سینٹ میں یہ کہ کر بل بلاک کر دیتے کہ غریب بچوں کے لیے اس میں کچھ نہیں۔
لیکن جمعرات کو اس سٹریٹیجی کی خامیاں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ اس بل میں شامل ‘چپ فنڈنگ’ کو وہ سپورٹ نہیں کرتے جس کے بعد یہ سوالات اٹھنے شروع ہوئے کہ کیا صدر ٹرمپ اس قانون کو اب بھی سپورٹ کرتے ہیں یا نہیں۔ ایوان نمائندگان میں جب کچھ ریپبلیکنز نے بل کے حق میں ووٹ نہ ڈالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس بل کی منظوری کے لیے درکار 60 ووٹ پڑے ہی نہیں۔ اور 50-49 کے فرق سے یہ منظور نہ ہو سکا۔
اب کیا ہوگا؟
بہت سے حکومتی ادارے بند ہو جائیں گے اور سٹاف کو جبری رخصت پر بھیج دیا جائے گا۔ البتہ قومی سلامتی اور ائیر ٹریفک کنٹرول جیسی ایمرجنسی سروسز چلتی رہیں گی۔
اخراجات کا بل پاس نہ ہو سکا، وفاقی حکومت کا شٹ ڈاؤن
امریکہ کے ڈیفنس سیکرٹری جیمز میٹس کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے کے پچاس فیصد لوگ کام پر نہیں جائیں گے اور کچھ مرمتی، تربیتی اور انٹیلیجنس آپریشنز کو فی الحال بند کرنا پڑے گا۔
اسی طرح 2013 کی طرح نیشنل پارکس اور قومی یادگاریں بھی بند کر دی جائیں گی لیکن اس پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تھا۔ ووٹنگ سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ کے کوشش تھی کہ کم از کم قومی پارکوں کو بند نہ کرنا پڑے اور بل پاس نہ ہونے کی صورت میں کوئی متبادل انتظامی بندوبست کیا جا سکے۔
ویزا اور پاسپورٹ سروسز میں بھی تاخیر ہو سکتی ہے۔
- کیا آئی پی ایل میں ’بے رحمانہ‘ بلے بازی کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے بدل رہی ہے؟ - 25/04/2024
- مریم نواز اور پنجاب پولیس کی وردی:’کیا وزیراعلیٰ بہاولنگر کے تھانے کا دورہ بھی کریں گی؟‘ - 25/04/2024
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں لاپتہ اہلخانہ کی تلاش: ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ چھوٹا سا معاملہ بن کر دب جائے‘ - 25/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).