پاکستان کے مولوی پورا پیکیج ہیں؟


چھوٹی عمر میں ہی والد صاحب نے مسجد میں ڈال دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکا بڑا ہو کر مولوی بنے گا۔ لڑکے کی اور ان کی آخرت سنور جائے گی۔ وہ شاید دس دنیا اور ستر آخرت کا حساب لگاتے رہتے تھے۔

مولوی بننا تو نصیب نہ ہوا لیکن چھوٹی عمر سے ہی مولویوں کی دل میں عزت بہت بن گئی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مولوی کو مولوی کہیے تو وہ بے عزتی سمجھتا ہے۔ آج کل کا ہر مولوی یا تو عالم دین ہے یا علامہ ہے یا کوئی امیر المجاہدین بن بیٹھا ہے۔

آج کل کے مولویوں کا جلال دیکھ کر مجھے اپنے گاؤں کے بھولے سے مولوی صاحب آج کل بہت یاد آتے ہیں۔ ان سے پڑھنا بھی اور جمعے کا خطبہ بھی سننا۔ انہوں نے میٹھی میٹھی باتیں کرنی، ہدایت کرنی، اپنی گائے بھینسوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ دعا کروانی فصلوں کو پالا نہ مار دے، اللہ اولاد نیک دے۔ کبھی کبھی شہر سے کسی چیتے مولوی نے آنا اور اس نے فلسطین کشمیر کے مظلوموں کے بارے میں دعا کروا دینی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

پھر سکول جا کر ہم نے اردو تعلیم شروع کی تو پتہ لگا کہ اردو میں ایک محاورہ ہوتا ہے ”دو ملاؤں میں مرغی حرام“۔ کوئی بات سمجھ نہ آئی۔ مولوی تو بچارے مسکین ہوتے تھے۔ جو گاؤں والوں نے دے دینا وہ شکر کر کے کھا لینا۔ مرغی تو چوہدریوں کی خوراک تھی۔ دیہات میں ویسے بھی کہتے تھے کہ غریب مرغی اسی وقت کھاتا ہے ہے جب وہ خود بیمار ہو یا مرغی بیمار ہو۔ مولوی بچارے تو حلوے کی پلیٹ پر ہی خوش ہو جاتے تھے۔

ہم جوں جوں بڑے ہوتے گئے توں توں مولویوں کا دبدبہ بڑھتا گیا۔ جو کرائے کی سائیکل ڈھونڈتے پھرتے تھے وہ پجیرو جیپوں پر گھومنے لگے۔ جنہوں نے جوتیاں سیدھی کرنے کے لئے کوئی ایک آدھا چھوٹا سا یتیم بچہ ساتھ رکھا ہوتا تھا ان کے آگے پیچھے کلاشنکوفوں والے باڈی گارڈ پھرنے لگ گئے۔

کچھ مال جہاد کے نام پر باہر سے آیا کچھ اپنے سیٹھوں نے بھی اپنی حرام کی کمائی کو حلال کرنے کے لئے مسجدیں اور مدرسے بنوائے۔ جس گلی میں پکی نالی بھی نہیں تھی ادھر بھی سنگ مر مر لگا کر مسجد بنوا دی۔

پچھلے ہفتے پاکستان کے کچھ مولویوں نے اسلام آباد والوں کو وخت ڈال دیا تو پہلی مرتبہ سمجھ آئی کہ آج کل کا نیا مولوی ایک مکمل پیکیج بن چکا ہے۔ تھوڑا سا عالم ہے تھوڑا سا بدمعاش۔ آدھا میراثی آدھا مولا جٹ۔ تھوڑا مجاہد تھوڑا فنکار۔ پہلے مقدس آیت پڑھتا ہے، پھر جگت مارتا ہے اور آخر میں بڑھک مار کر ہم جیسے گنہگاروں کا پیشاب خطا کرا دیتا ہے۔ ایک ہی بندہ آپ کا ایمان بھی تازہ کر دیتا ہے اور ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی اینٹرٹیمنٹ بھی ہو جاتی ہے۔

ہمارے سیکولر ٹائپ بھائی بہن مولویوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ کہتے ہیں ”معاشرے میں ایکسٹریم ازم بہت بڑھ گیا ہے کہیں مولوی حکومت میں نہ آ جائیں“۔ پھر انڈیا کی مثال بھی دیتے ہیں کہ دیکھو کل کے یوگی آج تخت پر آن بیٹھے ہیں۔

آج کل کے ہمارے مولوی اللہ سے ڈریں نہ ڈریں وردی والوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ لیکن ان وردی والوں کو جب لوگ کہتے ہیں کہ ان مولویوں کا کچھ کرو تو وہ آگے سے کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے بھائی ہیں۔

ہمارے سیکولر بھائیوں کے لئے میاں محمد بخش کہہ گئے ہیں ”اوہناں ہرنیاں دی عمر ہو چکی، پانی شیر دی جوہ جیڑیاں پیندیاں نیں“ (ان ہرنیوں کی عمر ہو چکی ہے جو شیر کے علاقے کا پانی پیتی ہیں)۔ قصور کسی ایک دھڑے کا نہیں، اس ملک کی مرغی مولویوں نے اکیلے حرام نہیں کی، ہمارا بھی کچھ نہ کچھ قصور تو ہو گا۔ یہ حلوے کی دیگ ہم سب نے مل کر پکائی ہے۔ اب کھانے والے پہنچ گئے ہیں تو رونا کس بات کا؟ اللہ خیر کرے گا۔

بی بی سی: پنجابی سے ترجمہ – عدنان خان کاکڑ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).