خبروں کا گریباں بند


تب کچھ بننے کی خواہش کے بارے میں تو معلوم ہی نہیں تھا مگر والدہ مجھے دیکھ کر پڑھا کرتی تھیں:
میں نشتر رکھوں گا کسی کے بدن پر
میں دکھ درد کھونے کی کوشش کروں گا

تو ڈر لگتا اور کراہت محسوس ہوتی کہ کہیں مجھے ڈاکٹر ہی نہ بننے پر مجبور کر دیں۔ البتہ لکھنے کی مثالیں گھر میں ہی تھیں، ماموں زاد اور بہنوئی محمد ظفیر ندوی ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر معاون ہونے کے ساتھ ساتھ روزنامہ امروز لاہور میں سب ایڈیٹر تھے اور بڑے بھائی مرزا محمد شعیب بھی مجلہ اردو ڈائجسٹ کی مجلس ادارت میں شامل۔ وہ لاہور سے آتے تو انگریزی کی کہانیوں کی کتابیں اور ریڈرز ڈائجسٹ ساتھ لے آیا کرتے تھے۔

میں میٹرک کا امتحان دے کر فارغ تھا چنانچہ ریڈرز ڈائجسٹ کے بک سیکشن سے ایک مبسوط ترجمہ کر ڈالا تھا۔ امتحان پاس کر لینے کے بعد جب میں بھائی ظفیر کے ہمراہ گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا تو انہوں نے میرا داخلہ فارم بھرتے ہوئے میری آہ و زاری کے باوجود، یہ کہتے ہوئے کہ شعیب نے پری میڈیکل میں داخل کروانے کو کہا ہے، پری انجنیرنگ یا آرٹس لکھنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

میرے ترجمہ کردہ مضمون کا نصف ان کی مہربانی سے امروز کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوا یوں میں ترجمہ کر کے ان کے پاس ان کے دفتر لے جانے لگا تھا۔ وہیں بڑی سی میز کے گرد جو لوگ بیٹھے ہوتے تھے ان میں سے مجھے دو افراد یاد رہے جن میں سے ایک کو وہ مرزا صاحب کہتے اور دوسرے کو منیر۔ مرزا صاحب تو شفقت تنویر مرزا تھے۔ البتہ دوسرے صاحب جب ان کا کالم گریبان پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ”منّو بھائی ” ہیں۔ ویسے وہ کئی بار بھائی ظفیر کی رہائش گاہ 22۔ ظفر علی روڈ پر انہیں ملنے بھی آئے مگر میں انہیں منیر قریشی ہی سمجھتا تھا۔

وقت بیت گیا۔ دو روز پہلے میں شاداں تھا کیونکہ دختر لکھنؤ مہربان دوست پراگتی نے میرے لیے اپنے شوہر ہمانشو کے ہاتھ دہلی سے اروندھتی رائے کا نیا انگریزی ناول ” وزارت برائے منتہائے مسرت ” منگوا کر مجھے دیا تھا۔ صبح اٹھ کر فیس بک کھولتے ہی شاہین قریشی کی پوسٹ دیکھی، ” منو بھائی اب ہم میں نہیں رہے“ انگریزی میں لکھا پڑھ کر منہ سے بے اختیار اناللہ و انا الیہ راجعون نکلا اور میں افسردہ ہو گیا۔ منو بھائی جنہیں میں کئی سال منیر قریشی سمجھتا رہا تھا اگرچہ معمر تھے اور خاصے بیمار بھی مگر کچھ لوگوں کے مرنے کی امید سے آدمی دور ہی رہنا چاہتا ہے۔
منو بھائی سے میری پہلی اور آخری دعا سلام کوئی چھ برس پہلے جب میں غزالہ نثار ( حسن نثار کی چھوٹی بہن، جو پنجاب انفارمیشن منسٹری میں ڈائریکٹر تھی) کے پاس بیٹھا تھا، ہوئی تھی۔ منو بھائی سرمئی گرم شلوار قمیص اور آف وہائے واسکٹ میں ملبوس اس کے دفتر میں داخل ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ غزالہ ان سے والہانہ طور پر لپٹتی میں ان سے ہاتھ ملا کر ” السلام علیکم سر“ کہہ چکا تھا۔ پھر غزالہ ان کےبارے میں مجھے بتاتی رہی اور میں سنا کیا، منو بھائی مسکراتے رہے۔ بہت شفیق مسکراہٹ تھی۔ یاد رہے سبھی بزرگوں کی مسکراہٹ خالص مشفقانہ نہیں ہوتی مگر ان کی خالص تھی۔ میں ان سے کوئی بات نہیں کر پایا تھا کیونکہ وہ بس چند منٹ کے لیے ہی غزالہ کو دیکھنے پہنچے تھے۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ میں انہیں جانتا تھا۔ جانتے تو شاید وہ بھی نہیں تھے جو ان کے بہت قریب رہے کیونکہ انسان اپنی ذات کا بہت کچھ سب پر عیاں کر ہی نہیں سکتا تاہم ان کے کالم ”گریبان“ سے ( جسے میں نے ان کی مرض موت سے پہلے والی بیماری کے بعد پڑھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ مختصر ہوتا تھا اور اس میں منو بھائی کم جھلکنے لگے تھے ) جتنا باقی لوگ جان سکے اتنا میں بھی جان گیا تھا کہ وہ ان بہت کم لوگوں میں سے تھے جو فی الواقعی انسان کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ جب تھیلاسیمیا سے متعلق سرگرم سندس فاؤنڈیشن میں ان کی سرگرمی سے متعلق پڑھا اور جانا تو ان کے فی الواقعی انسان ہونے پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی تھی۔

ان کی ذات، سب کے سامنے واضح ہے کہ موقع پرستی سے ناآشنا رہی جبکہ موقع پرستی صحافت میں ممیز بیشتر افراد کے بارے میں اظہر من الشمس ہے۔ وہ ویسے ہی صاف تھے جیسے میری نظر میں شفقت تنویر مرزا صاحب عمر بھر رہے تھے۔

مجھے ان سے ذاتی طور پر ایک گلہ تھا جو میں ان کی زندگی میں ان سے کرنے کی جرات نہیں کر سکا تو اب کیا کسی سے کہوں بس اتنا کافی ہے کہ کچھ چالاک لوگ ان کی سادہ دلی کا فائدہ اٹھا کر ان سے اپنی تعریف میں کچھ لکھوا لیتے تھے۔ ایک ایسی ہی کتاب جس میں میرے بارے میں ایک معروف کالم نگار نے انٹ شنٹ لکھا تھا، کے پہلے صفحات میں اعتزاز احسن اور ان کے توثیفی مضامین تھے۔ جس تحریر میں کسی آدمی کا نام لکھ کر الزامات لگائے گئے ہوں، اس پر تحقیق کرنی ہوتی ہے مگر منّو بھائی جس سے پیار کرتے تھے شاید اس کی کہی بات کو سچ سمجھ لیتے ہوں گے۔ یا پھر اگر اس کے اندر کے خبث کو جانتے بھی ہوں گے تو اس کا دل رکھنے کو خاموش رہتے ہوں گے۔ میں نے یہ غلطی معاف کر دی، اللہ بھی معاف کرے گا، انشاءاللہ۔

مجھے ان کا کالم ”گریبان ” اس لیے پسند تھا کہ وہ اخبار کا گریبان تھا۔ اخبار جو مصلحت اور مصالحت کے نام پر بہت کچھ درست نہیں لکھ سکتا، منو بھائی اسے اپنے ”گریبان“ میں واضح کر دیا کرتے تھے۔ وہ سیاسی تجزیے نہیں کرتے تھے۔ وہ بات کرتے تھے، کبھی جاوید شاہین، کسی عربی یا لاطینی امریکی شاعر کی نظم کا ترجمہ ان کے گریبان میں دنیا کا کھلا گریبان بن جاتا تھا۔
وہ ٹراٹسکائٹس کے حامی تھے جو میں کبھی نہیں رہا۔ انہیں ٹیڈ گرانٹ اور ڈاکٹر لال خان کی طرح صبح انقلاب کا یقین تھا جو مجھے اب تو بالکل نہیں۔ پھرمجھے ذاتی طور پر ٹیڈ گرانٹ کوئی بہت بڑا دانشور نہیں لگتا۔ ڈاکٹر لال خان تو ویسے ہی میرے لیے تنویر گوندل رہے گا چاہے اب وہ جتنا بڑا ہو گیا ہو، جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی۔ مگر ان باتوں کا ان کی ذات سے وہ تعلق نہیں تھا جو مجموعی طور پر انسان کے ساتھ تھا۔ انسان کی فلاح کے لیے حساس شخص ہر اس تنکے کا سہارا لے سکتا ہے جو لگتا ہو کہ ساحل سے نزدیک ہے۔

منو بھائی گریبان کھولے گور میں چلے گئے، اب خبروں کا گریبان بند ہو چکا ہے۔ اب ہمیں پڑھنے کو خبروں پر تبصرے ہی ملیں گے ان کی اصل حقیقت سے آگاہی شاید ہی نصیب ہو پائے۔ اخبار کا سنجیدہ اردو قاری اپنے ایک رفیق، رشتے دار سے محروم ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).