جوتے کے تسمے


میں چھوٹا تھا، سات آٹھ سال کا، صبح سویرے تیار ہوکر زمین پر بیٹھ کر جوتے پہن لیتا پھر ابو کی طرف دیکھتے ہوےء دونوں پیر زمین پر بیٹھے بیٹھے پھیلادیتا تھا۔ وہ جھک کر میرے تسمے باندھ دیتے اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچ کر کھڑا کردیتے تھے۔

آپ سے جوتے کے تسمے بھی نہیں بندھتے۔ چلو میں آپ کو سکھادوں گا۔ وہ بڑے پیار سے مجھے مخاطب کرتے تھے۔
پھر مجھے اپنے اسکوٹر کی پچھلی سیٹ پر بٹھا کر اسکول کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ میں ان کی کمر کے گرد ہاتھ باندھ لیتا اور ان کی گردن کے پیچھے سے ان کی خوشبو سونگھتا ہوا اسکول پہنچ جاتا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ادھیڑ عمر کے صحت مند انسان تھے، پچاس سے اوپر ساٹھ کے قریب ہی عمر ہوگی۔ مکمل طور پر امریکی لہجے میں انگلش بول رہے تھے، اس عمر میں بھی ایک خاص قسم کی کشش تھی ان میں۔ دُبلا پتلا کسرتی جسم، بڑی بڑی ذہین آنکھیں، اچھی طرح سے بنایا گیا شیو جس سے صاف ستھری اور گوری رنگت اور نمایاں ہوگئی تھی۔ پہلے پہل تو وہ مجھے انگریز ہی لگے جب تک ان کی پیشانی پر گول سے نشان پر نظر نہیں پڑی تھی۔ سجدے کا گول نشان ظاہر کررہا تھا کہ کافی وقت انہوں نے مذہبی عبادات میں گزارا ہے۔ وہ آرام کرسی پر آرام سے ہی بیٹھے کبھی کبھار میری جانب سے کیے ہوئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنی رام کتھا سنانے لگتے تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں سائیکٹرسٹ تھا، کئی سالوں سے کیلی فورنیا کے چھوٹے سے شہر میں آکر بس گیا تھا اور یہاں اپنا آفس چلا رہا تھا۔ آیا تو میں نیویارک تھا اور نیویارک میں ہی امتحان پاس کرنے کے بعد اپنی تربیت مکمل کی تھی۔ کالج کے زمانے سے ہی مجھے ذہنی امراض سے دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔ سارے انسان ایک جیسے ہوتے ہیں مگر سارے انسانوں کے ذہن ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر ذہن مختلف ہوتا ہے اور ان ذہنوں کا سمجھنا، ان کو پڑھنا اور اس بات کا ادراک کرنا کہ اس ذہن میں کوئی خرابی ہے اس خرابی کا علاج کرنا ایک طرح کا چیلنج ہی ہوتا، مجھے یہ چیلنج پسند تھا۔ ذہنی امراض کے شکار لوگوں کا علاج ممکن ہے۔ یہ بات مجھے امریکا میں ہی سمجھ میں آئی تھی۔ کراچی میں جتنے بھی دن ذہنی امراض کے وارڈ میں گزارے اس سے تو یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ذہنی امراض کا عام طور پر کوئی علاج نہیں ہے۔ رشتے دار انہیں چھوڑدیں یا یہ ساری زندگی ان کے قیدی بن کر رہ جائیں۔ میں بڑا خوش قسمت تھا۔ نیویارک میں تربیتی پروگرام میں داخل ہوتے ہی پہلے دن ہی مجھے اپنے پروفیسر کی یہ بات اچھی لگی تھی کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم ذہنی طور پر بیمار آدمی کو سماج میں نارمل زندگی گزارنے پر مجبور کردیں۔ لفظ مجبور کا یہ استعمال مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ ہم مختلف ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹروں کی طرح ایک عضو کی بیماری کا علاج نہیں کرتے ہیں، ہم پورے جسم کا علاج کرتے ہیں، سامنے والے جسم کا اور اس جسم کے اندر ایک اور جسم کا۔ یہ ایک عجیب سی بات بہت عجیب سی بات مجھے بڑی بھلی لگی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زندگی میں بہت پریشان ہوا ہوں اور ساری پریشانیوں کو بھگتا یا بھی ہے، ان سے نمٹا بھی ہوں۔ کبھی بھی میدان چھوڑ کر بھاگا نہیں ہوں۔ پریشانیوں کے میدان مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے تھے۔
کہیے؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد میں نے سوال کیا تھا۔

میں پریشانیوں سے بالکل بھی پریشان نہیں ہوں لیکن نہ جانے کیوں اداس ہوں، بہت اداس۔ اداسی میرے جسم کے اندر کی تمام گہرائیوں تک سرایت کرگئی ہے اندر اندر گھس کر مجھے تباہ کررہی ہے میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کیا کروں۔ کس طرح سے اس اداسی کا مقابلہ کروں۔ پریشانی کا تو توڑ ہونا ہے، اُداسی کا توڑ سمجھ سے باہر ہے۔ ڈاکٹر صاحب پریشانیوں سے تو میں نمٹ سکتا ہوں لیکن اداسی سے نکلنا میرے لیے تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کروہ خاموش ہوگئے تھے۔
میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کی دونوں بڑی بڑی آنکھوں میں سمندر بھرا ہوا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اداسی انسان کو اندر سے کھانا شروع کردیتی ہے۔ تھوڑی بہت اداسی تو زندگی معمولات کا حصہ ہیں۔ کسی کام میں ناکامی، امتحان میں فیل ہوجانا منگنی یا شادی کا ٹوٹ جانا، کسی دوست کی موت، اس طرح کے چھوٹے بڑے واقعات سے اُداس نہ ہونا تشویش کی بات ہے۔ اس طرح کی اداسی تو بالکل فطری ہے عام طور پر اس قسم کی اداسی کے بعد خودبخود حالات صحیح ہوجاتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ بغیر کسی وجہ کے اداس رہتے ہیں، ہوجاتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے اور آہستہ آہستہ اُداسی انہیں کھاتی رہتی ہے اندر سے جیسے دیمک آہستہ آہستہ کتابوں کو نگل لیتی ہے۔ ایسے مریضوں کا علاج مشکل ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ ان پر نظر رکھنی ہوتی ہے، یہ لوگ اپنی اداسی کے ہاتھوں کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امریکا میں میں نے کیا نہیں کیا، میں جس وقت امریکا پہنچا تھا اس وقت سب کچھ آسان تھا، یہاں کام کرنے والے لوگوں کی کمی تھی اورہم جیسے پاکستانیوں کو کام کی ضرورت تھی۔ کام کے ساتھ ڈالر بھی آنے لگے، گھر بھی ہوگیا، گاڑی بھی ہوگئی اور ہر قسم کی لڑکیوں سے ملنا جلنا بھی شروع ہوگیا۔ بہت جلد میں پاکستان اور پاکستان میں اپنے گھر والوں کو بھول گیا۔ کون سی شراب، اور وائن نہیں پی میں نے۔ انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے سوال بھی کیا اور جواب بھی دے دیا تھا۔ ہر قسم کی شراب پی اور ہر رنگ کی لڑکیوں سے تعلقات قائم کرلیے۔ یہاں پر بڑی آسانی ہے، برابری کے اصول پر ساتھ رہنا شروع کردیا، محبت ہوگئی تو بچے بھی ہوگئے، دونوں کی مرضی ہوئی تو شادی بھی کرلی، مرضی ہے تو شادی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میں رہا بہت سوں کے ساتھ لیکن میرا خیال ہے کہ بچہ میرا کوئی نہیں ہوا۔ ویسے کوئی ہو بھی گیا ہو تو پتہ نہیں ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کوئی لڑکی تھوڑے دنوں ساتھ رہی پھر یکایک غائب ہوگئی۔ ایسی کوئی پریگننٹ ہوگئی ہو تو ہوگئی ہو انہوں نے سوچتے ہوئے کہا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میری بھی کئی نرسوں اور ساتھ میں کام کرنے والی لیڈی ڈاکٹروں سے دوستی رہی تھی، تعلقات رہے تھے، ساتھ گھومے تھے۔ چھٹیوں پر گئے تھے مگر جلد ہی نہ جانے کیسے میں این کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا۔ میں اپنی تربیت کے آخری سال میں تھا اور اس نے ہمارے شعبے میں تربیت شروع کی تھی۔ اس کا تعلق کیلی فورنیا سے تھا، پہلے دن سے ہی مجھے وہ اچھی لگی اور سال کے اندر اندر میری گریجویشن کے بعد ہم دونوں نے شادی کرلی۔ شادی ہم نے جلدی کی مگر ہمارے رشتے کی بنیاد بہت مستحکم تھی۔ اس کا خاندان اور اس سے اس کا رشتہ بہت مضبوط تھا، اس کے والدین بالکل بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ ایک پاکستانی سے شادی کرے۔ وہ لوگ پڑھے لکھے تھے پانچ بھائی بہن پر مشتمل کیتھولک خاندان۔ اس کا باپ یونیورسٹی میں پڑھاتاتھا اور ماں وکیل تھی۔ این سب سے بڑی تھی جب کہ اس کے دو چھوٹے بھائی بہن ابھی پڑھ رہے تھے۔ شروع میں میں ان کے خاندان میں دھماکہ ہی بن کر آیا۔ لیکن شروع میں مخالفت کے بعد انہوں نے مجھے قبول کرلیا تھا۔ نہ میں کیتھولک بنا نہ ہی وہ مسلمان ہوئی۔ ہم دونوں نے کورٹ میں جا کر شادی کی تھی اور کیلی فورنیا میں ایک چھوٹی سی دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن میری زندگی میں کوئی دوسری عورت نہیں آئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نئی نئی عورتوں کے آنے جانے سے، طرح طرح کی شراب لڈھانے سے، شاندار بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے سے وقت تو گزرجاتا ہے، مزا تو بہت آتا ہے مگر سکون نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب۔ پاکستان سے تو شروع میں ہی رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ ایسا کیوں ہوا۔ ایسی کوئی خاص بات ہوئی بھی نہیں تھی۔ بس ابا جان کا معمول کا خط تھا کہ میں پاکستان آؤں اور شادی کروں۔ اس زمانے میں میں ایک بڑی خوبصورت سی روسی لڑکی کے ساتھ رہ رہا تھا اور زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی۔ ابھی تک عورتوں سے اکتاہٹ نہیں ہوئی تھی مجھے۔ نہ جانے کیوں وہ خط مجھے اچھا نہیں لگا۔ حالانکہ انہیں بہت آسانی سے ٹالا جاسکتا تھا۔ مگر نہ جانے کیوں میں نے انہیں جواب ہی نہیں دیا۔ پھر وقت کے تانے بانے کچھ اس طرح سے الجھے کہ انہیں سلجھانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ مجھے تو خبر بھی نیہں ہوئی کہ میری ماں کی موت ہوگئی ہے۔ بہنوں کا کیا ہوا بھائی تو کوئی اور تھا نہیں اور میں ایسا نالائق کہ واپس نہ گیا اور نہ ہی انہیں تلاش کیا۔ کچھ ایسی ہی بات ہوگئی تھی میری ہمارے تعلقات میں، پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ایسا کیوں ہوگیا۔ اتنا عرصہ کیسے گزرگیا کہ مجھے وقت کا پتہ ہی نہیں چل سکا۔ اس کی آنکھوں میں ویرانی سی بھرگئی تھی پہلی دفعہ مجھے اس کے چہرے پر جیسے احساس جرم نظر آیا تھا۔ انسان کتنا پیچیدہ ہوتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نیویارک میں میرا پہلا سال ہی تھا کہ مجھے خبر ملی کہ امی ابو اور چھوٹی بہن گاڑی سے اتر رہے تھے کہ ایک بے قابو ٹرک نے آکر انہیں ماردیا تھا۔ وہ تینوں موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ موت کی خبر بھیانک تھی کہ چاہنے کے باوجود امیگریشن کے کچھ قوانین کی وجہ سے میں واپس جا ہی نہیں سکا، بعد میں کس کے پاس جاتا، ایک چچا تھے بس۔ ان کے دو تین خط آئے بھی لیکن کچھ ایسے کہ میں جانے کا حوصلہ نہیں کرسکا، غم کو پی گیا۔ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو اس طرح سے مصروف کرلیا کہ پاکستان واپس جانے کی نہ خواہش ہوئی اور نہ ہی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیا کرنا اس جنگل میں جا کر۔ ایک دفعہ سوچا تھا کہ جب بورڈ کا امتحان ہوجائے گا تو جاؤں گا مگر بورڈ کے امتحان سے پہلے این زندگی میں آئی اور آکر چھاگئی، نہ میں نے اس سے مشورہ مانگا اور نہ ہی اس نے مجھے کہا کہ پاکستان جاؤں۔ شادی کے بعد تو اس کا خاندان ہی میرا خاندان بن گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زندگی میں آنے والی بے شمار لڑکیوں میں سے ایک وہ تھی جس سے مجھے صحیح معنوں میں محبت ہوگئی۔ سچی بات یہ ہے کہ اسے بھی زندگی میں پہلی دفعہ دل صحیح معنوں میں بے چین ہوا اوریہ سمجھ میں آیا کہ بے قراری کیا ہوتی ہے۔ انہوں نے ٹشوپیپر سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے آہستہ سے کہا تھا۔
اب ان کی زندگی کی کہانی کا دلچسپ پہلو سامنے آیا تھا۔
تو کیا شادی کرلی آپ سے اس نے۔ میں نے سوال کیا تھا۔
نہیں، وہ مرگئی انہوں نے کسی روبوٹ کی طرح جواب دیا تھا۔

ہم دونوں نے ایک تھائی ریسٹورانٹ میں ملنا تھا سنیچر کی دوپہر۔ میں نے اس کے لیے بہت قیمتی سی انگوٹھی خریدی تھی۔ اس دن میں اس سے مکمل وابستگی کا اعلان کرنے والا تھا۔ میں اس کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آئی۔ کئی گھنٹوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ ہسپتال میں ہے۔ زندگی کی جنگ ہار رہی ہے۔ میں جب وہاں پہنچا تو ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور پیٹیوں میں لپٹی ہوئی وہ وینٹی لیٹر پر تھی۔ نہ جانے کتنے سالوں کے بعد مجھے خدا یاد آیا۔ ہسپتال میں ہی عبادت کرنے والے کمرے میں میں نے سالوں کے بعد نماز پڑھی۔ رو رو کے دعائیں مانگیں۔ اوپر والے کے احسانات کا شکریہ ادا کیا، شراب چھوڑ دینے کا وعدہ کیا۔ دو دن تک مجھے کچھ پتہ نہیں چلا تھا کہ میں کیا کررہا ہوں۔ اس کے ساتھ رہنے والی اس کی دوست مریانے ہی اس کے ماں باپ کو خبر دی تھی۔ وہ گوئٹے مالا کی رہنے والی تھی۔ ساؤتھ امریکا کی مہاجر جیسے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال سے لوگ پیسہ کمانے امریکا جاتے ہیں ویسے ہی ساؤتھ امریکی ممالک میکسیکو، چلی، گوئٹے مالا پیرو وغیرہ سے لوگ قانونی اور غیرقانونی طریقوں سے امریکا پہنچتے ہیں۔ وہ قانون پڑھنے کے لیے امریکا آئی تھی۔ گوئٹے مالا کے متوسط گھرانے کی لڑکی ساری دنیا کے متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کے خواب سجائے پہنچی۔ یونیورسٹی میں پڑھ بھی رہی تھی اور ایک پب میں کام بھی کررہی تھی۔ اسی پب میں میری ملاقات اس سے ہوئی اور ملاقات محبت میں بدل گئی۔ میری محبت، میری دعائیں، میرا کھویا ہوا خدا کچھ بھی اسے نہیں بچاسکا۔ اس کی آنکھیں پھر بھرگئی تھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شادی کے بعد میں اور این دونوں ہی کیلی فورنیا آگئے تھے، وہاں کا موسم مجھے بھی پسند آگیا تھا۔ کہاں نیویارک کی سردی اور کہاں کیلی فورنیا کا کراچی جیسا موسم۔ کیلی فورنیا میں این کا پورا خاندان تھا، بہت دنوں کے بعد مجھے پھر سے خاندان جیسا پیار ملا۔ شروع میں اس کے والدین ہماری شادی کے خلاف تھے مگر بعد میں ان کے سارے کنبے نے مجھے دل سے قبول کرلیا تھا۔

وہ سب لوگ بھی ہمارے ہی جیسے تھے، ، وہی دادیوں نانیوں جیسا پیار، جیسے پاکستان میں ہوتا ہے اور وہی محبتیں اور رقابتیں جو خاندانوں میں ہوتی ہیں۔ ہم دونوں نے ایک ہی جگہ پر اپنا آفس بنا کر کام شروع کردیا۔ بہت جلد ہی مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔ میرے جانے پہچانے مسلمان نام کی وجہ سے بہت سارے پاکستانی ہندوستانی اور عربی ہمارے مریض بن گئے۔ ان کا تعلق بھی پاکستان سے تھا انہوں نے کہا تھا کہ وہ مجھ سے ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے بھی دو دفعہ میں ان سے مل چکا تھا مگر آج انہوں نے کھل کر بات کی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں بڑے دکھے دل کے ساتھ اس کی لاش کو لے کر گوئٹے مالا گیا۔ میں اس کے گھروالوں کو نہیں جانتا تھا، نہ ان سے کبھی بات ہوئی تھی نہ مجھے پتہ تھا کہ انہیں میرے اوراس کے تعلقات کے بارے میں کچھ پتہ بھی ہے کہ نہیں لیکن میرے دل نے کہا تھا کہ مجھے جانا چاہیے، میں گیا اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ واپس آگیا۔ مجھے ان لوگوں کے غم نے ہلکان کردیا نہ جانے کیا کیا خواب دیکھے تھے ان لوگوں نے۔ اس چھوٹے سے خاندان کی دنیا اتھل پتھل ہوکر رہ گئی۔ میں تین دن میں واپس آگیا۔ ڈاکٹر صاحب میں نے شراب چھوڑدی اور پتہ نہیں کتنے سالوں کے بعد مسجدوں میں پناہ ڈھونڈنے لگا، پناہ مل گئی، تھوڑا سکون بھی ملا مگر بے چینی، بے کیفی، اداسی مسلسل پیچھا کررہی ہے۔ روپوں کی پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہاں امریکا میں میں نے عمارتوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ آمدنی ضرورت سے زیادہ نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ ہے۔ میں نے مسجدوں کو پیسے دینے شروع کردیے تھے وہیں مسجد میں ہی احمد صاحب سے ملاقات ہوگئی انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ کراچی واپس جا کر اپنے گھر والوں سے ملوں۔ اصل رشتے وہیں تھے وہی ہیں اور سکون بھی وہاں ہی ملے گا۔ میں نہ جانے کتنے سالوں کے بعد پاکستان چلا گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ ان کے چہرے کے تاثر عجیب سے تھے۔ میں نے اپنے خاندان کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا۔ امریکا کے امریکی خاندان میں میں بہت خوش تھا کراچی، گھر اور دوست کچھ خاص یاد نہیں آتے تھے۔ ابو امی اور چھوٹی بہن دنیا میں ہوتیں تو میں ضرور واپس جاتا۔ شاید شادی بھی ان کی ہی مرضی سے کسی پاکستانی لڑکی سے ہوتی لیکن اب تو یہی میری دنیا تھی اور یہی میرا وطن۔ مجھے امریکی لوگ اچھے لگتے تھے۔ شاید بہت ساری باتیں اچھی نہ ہوں مگر سب سے بڑی اچھائی ان کی سچائی تھی۔ میں سوچتا تھا روزمرہ کے زندگی گزارنے کے لیے کیا چاہیے ہوتا ہے۔ قانون، مذہب اعتقاد، ایمان، روایات، اقدار یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اگر سچائی نہ ہو توزندگی نہیں گزرسکتی ہے۔ مجھے نہاری، بریانی، پکوڑے جلیبی کی بھی کوئی خاص یاد نہیں آتی تھی۔ کبھی کبھی میں اوراین بچوں کے ساتھ پاکستانی، ہندوستانی، بنگلہ دیشی، چینی ریسٹورانٹ میں کھانا کھالیتے تھے لیکن میری زندگی پرسکون تھی کیوں؟ میں ذہن ہی ذہن میں ان کا اور اپنا مقابلہ کرنے لگا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کراچی آسان ثابت نہیں ہوا تھا۔ دوسرے دن ہی ہوٹل سے گاڑی لے کر میں برنس روڈ کے اپنے گھر کی تلاش میں چل کھڑا ہوا تھا۔ برنس روڈ کا وہ سارا علاقہ بدل گیا ہے لڑکیوں کا کالج، بازار، گلی دوکانیں اپنی جگہ پر موجود ہیں مگر ان میں رہنے والے محبت کرنے والے، خیال رکھنے والے شہری نہیں رہے۔ اردو بازار میں ٹائر کی دکانوں کے سامنے پرانے زمانے کی خوبصورت سی عمارت تھی۔ زیادہ تر فلیٹوں میں توڑ پھوڑ کرکے انہیں ریسٹورنٹ میں بدل دیا گیا ہے یا آفس کھل گئے ہیں۔ میرے بچپن اورلڑکپن کا برنس روڈ نہیں تھا وہاں پر۔ ہماری تارا چند بلڈنگ میں کوئی بھی جاننے والا نہیں ملا۔ ایک چوکیدار نے بتایا تھا کہ برابر والی عمارت میں چوتھی منزل کے فلیٹ میں ایک پرانا آدمی رہتا ہے۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ چوتھی منزل کے آٹھ نمبر فلیٹ کو کھٹکھٹایا تھا۔ ایک بوڑھے آدمی نے دروازہ کھولا، جب میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا تو وہ پہچان گئے تھے۔ مجھے بھی یاد آگیا تھا۔ ان کی ایک چھوٹی سی دوکان برنس روڈ پر ہی ہوتی تھی۔

وہ مجھے اندر لے گئے۔ بٹھایا تھا، بڑے شکایت امیز انداز میں بولے تم نے تو حد ہی کردی، امریکا کوئی ایسے جاتا ہے کہ پلٹ کے پوچھا تک نہیں۔ میں کیا جواب دیتا، میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ تمہاری ماں اور باپ نے تمہارے گم ہونے کے بعد ایک بچہ گود لے لیا تھا۔ عامر بہت اچھا بچہ تھا وہ۔ بڑے شوق سے پڑھایا اسے تمہارے ابا اماں نے، پھر اس نے ہی تم لوگوں کا کاروبار سنبھال لیا تھا۔ بڑے دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی تمہاری بہن کی تمہارے بغیر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ شادی کے دو سال کے بعد مرگئی تھی۔ تمہاری ماں اس غم کو سہہ نہیں سکی، ایک تمہارا غم پھر بیٹی کا غم، ایک دن وہ بھی چلی گئی تھیں یہاں سے۔ تمہارے ابو اور عامر کام کرتے رہے تھے اب اپنا فلیٹ بیچ کر ڈیفنس میں رہ رہے ہیں۔ میں بہت سالوں سے ان سے نہیں ملا ہوں۔

ان کا کوئی اتہ پتہ کوئی فون نمبر وغیرہ کچھ ہے آپ کے پاس۔ میں نے ان سے پوچھا تھا۔ کچھ بھی نہیں تھا ڈاکٹر صاحب کچھ بھی نہیں۔ میرا دل جیسے خون کے آنسو رونے لگا۔ میں نے اپنے آپ کو اتنا اکیلا کبھی بھی محسوس نہیں کیا تھا۔

ٹھہرو میں چائے لاتا ہوں تمہارے لیے۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ یہاں اکیلے رہ رہے ہیں پورے کمرے پر ایک عجیب قسم کی اداسی کا ڈیرہ تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ چائے لے کر آئے اورمجھے دے کر چلے گئے جیسے انہیں کچھ یاد آگیا ہو۔ میں نے چائے پینا شروع کیا اور اندر ہی اندر اپنے آپ سے لڑنے لگا۔ تھوڑیر دیر میں وہ واپس آئے اورمسکرا کے بولے عامر کی شادی کا کارڈ ابھی تک پڑا ہوا تھا۔ بڑا سا کارڈ ہے اچھے گتے کا۔ اسے میں نے اندر چھوٹی چائے کی ٹیبل پر بچھایا ہوا تھا، ان کا ملازم کارڈ دے کر گیا تھا۔ میں گیا تھا شادی میں یہ اس پر پتہ لکھا ہوا ہے اور فون نمبر بھی ہے، خوشی اورامید کی ایک زبردست لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ ان سے کارڈ لے کر گھر کا پتہ اور فون نمبر میں نے اپنی چھوٹی سی ڈائری میں لکھا تھا۔ آخر کار اوپر والا مہربان ہوگیا تھا مجھ پر۔ میں اپنے روٹھے ہوئے باپ سے مل لوں گا ان کے پیروں پر سر رکھ کر معافی مانگ لوں گا، جی بھر کے رولوں گا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تھا اور جلدی سے نیچے آکر ہوٹل کی گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو ڈیفنس کے اس گھر کا پتہ دیا تھا۔ آدھے گھنٹے میں ہم وہاں پہنچ گئے تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک دفعہ این کے والد نے مجھ سے کہا بھی کہ میں پاکستان واپس جا کر اپنے خاندان والوں سے ملوں۔ یہ اچھا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جڑوں سے وابستہ رہے انہوں نے بیئر کا گلاس مجھے دیتے ہوئے کہا تھا۔ میں سال دو سال پر آئرلینڈ جاتا ہوں۔ اپنے باپ دادا کے چھوٹے سے گاؤں میں کوئی بھی مجھے نہیں جانتا ہے لیکن مجھے اچھا لگتا ہے۔ تمہیں بھی اچھا لگے گا شاید مجھے بھی اچھا لگتا مگر میں ان سے نہیں کہہ سکا کہ میرے چچا نے دو خط کے بعد کوئی خط نہیں لکھا میرے باپ کے مکان پر ان کا اوران کے بچوں کا قبضہ ہے میں جاؤں گا تووہ یہی سمجھیں گے کہ میں اپنا حصہ لینے آگیا ہوں۔ یہ احساس ہی مجھے سخت تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے۔ شاید ایسا نہ ہو مجھے وہ گلے لگالیں اور سب کچھ میرے حوالے کردیں جس کی میرے لیے کوئی اہمیت نہیں۔ میں اس احساس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں، اس تکلیف کے ساتھ نہیں جو اعتماد کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے۔ میں اپنی اس چھوٹی سی دنیا میں خوش ہوں، وہ دنیا میری ہے ہی نہیں تو میں کیوں اس کی جستجو کروں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈھلتے سورج کی گرمی کم تھی، چوکیدار نے بڑا گیٹ کھول کر اندر بلالیا تھا۔ بڑے سے گھر کے سامنے بڑا سا گھاس کا لان تھا جہاں کچھ کرسیاں بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھیں۔ چوکیدار ایک خوش شکل آدمی کے ساتھ واپس آیا۔ وہ عامر تھا۔ مجھے یہ سوچ کر ہی اچھا لگا کہ اس نے میرے باپ کی خدمت کی تھی۔ میں نے اس سے اپنا تعارف کرایا۔ وہ فوراً ہی بھائی جان کہہ کر گلے لگ گیا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اتنی گرم جوشی سے کیسے مل رہا ہے۔ وہ پیچھے ہٹا تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھرا ہوا تھا۔
دیر کردی بھائی آپ نے وہ تو کل چلے گئے۔ کل شام ہی کو تو ان کو دفن کیا گیا ہے۔
میں لڑکھڑا کر زمین پر بیٹھ گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نفسیاتی امراض، مرض ہیں بھی کہ نہیں۔ یہ میں آج تک سمجھ نہیں پایا ہوں۔ خاص طور پر ایسی دنیا میں جہاں انسان رہتے ہیں ہر انسان ہر انسان سے جدا، ہر ایک سے مختلف، ایک طرف ایسے لوگ جو معمولی سی بات پر بھڑک جائیں تو خودکشی کرلیں اور ایک طرف وہ جو بڑی سے بڑی بات کو ایسے جھیل لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہو۔ ان کی ساری کہانی کا سارا سرپیر میری سمجھ میں آگیا تھا لیکن ابھی ان کی اس شکل پر اداسی کو کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ میں کچھ کہے بغیر ان کی طرف دیکھ رہا تھا ان کی آنکھیں سرخ تھیں جہاں سے آنسو کسی آبشار کی طرح سے ابل رہے تھے۔
اس نے اور اس کے چوکیدار نے مل کر مجھے اٹھایا اوراندر لے گئے۔ بڑے سے خوبصورت ڈرائنگ روم میں ابو کی تصویر لگی ہوئی تھی، چمکتی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں، چوری پیشانی اور ٹھوڑی پر چھوٹا سا کالا تل، مجھے پھر رونا آگیا تھا۔

وہ اور امی آخر دم تک آپ کو یاد کرتے رہے وہ کہتے تھے آپ ایک دن آئیں گے ضرور ائیں گے یہ کہہ کر اس نے بھی رونا شروع کردیا تھا۔
میں نے کہا مجھے فوراً ہی قبرستان لے چلو وہ کھڑا ہوگیا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی باہر نکالی اور بہت جلد ہم لوگ قبرستان پہنچ گئے تھے۔ ایک درخت کے ساتئے میں ان کی کچی بھیگی ہوئی قبر تھی جہاں منوں مٹی کے ڈھیر کے نیچے وہ سورہے تھے۔ قبر پر گلاب کے پھول کی بے شمار پنکھڑیاں بکھری ہوئی تھیں۔ میں روتا روتا ان کے سرہانے بیٹھ گیا تھا۔ آہستہ سے ان کی قبر پر ہاتھ رکھ کر میں نے دھندلی آنکھوں سے عامر کو دیکھا اورآنکھیں بند کرلی تھیں۔
ابو نے میرے ہاتھ پکڑلیے تھے آجاؤ بیٹے بیٹھ جاؤ، تمہارے تسمے کھلے ہوئے ہیں، آؤ انہیں باندھ دوں آپ سے جوتے کے تسمے بھی نہیں بندھتے، چلو میں آپ کو سکھاتا ہوں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).