منصف کی نیت انصاف دینے کی تو ہو


گھنی مونچھوں اور صاف کرائی ہوئی داڑھی کے ساتھ وہ ایک حقیقی کمیونسٹ حلیہ اپنائے ہوئے تھے۔ ماسکو سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والے بوڑھے بلوچ نے گلاس میں بادہ انڈیل کر بولنا شروع کردیا۔ میں پہلی بار کسی کو ام الخبائث پیتا دیکھ کر گھٹن محسوس کررہا تھا

قبائلی روایات کے پیش نظر مجھے اپنی الجھن پر قابو پانا تھا۔ انھیں اس بات کا احساس نہیں ہونا چاہیے تھا کہ مجھے ان کا پینا ناگوار گزر رہا ہے۔ وہ مختلف موضوعات پر مضبوط گرفت کے ساتھ بولے جا رہے تھے اور پھر انھوں نے افغانستان پر روسی حملے کا ذکر چھیڑ دیا۔ مجھے تو بس اس جہاندیدہ شخص کو سننا تھا۔

وہ گویا تھے ہمیں روسی حملے نے کافی پرجوش کردیا تھا ہمیں اپنی منزل قریب نظر آرہی تھی۔ افغانستان اور پاکستان میں کمیونزم کا نفاذ ممکن ہوتا نظر آرہا تھا۔ ہماری افغان قوم پرستوں سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن اس کے بعد جاہل افغانوں نے روس کو دریا آمو کے اس پار دھکیل کر ہمارے خواب چکنا چور کردیئے۔ اب ہمیں خوابوں کی دنیا سے نکل کر کوئٹہ میں اپنے لئے روزی کا بندوبست کرنا تھا۔

کچھ پشتونوں کے ساتھ مل کر چمن کے رستے افغانستان سے لوہے کا کام شروع کردیا۔ افغانستان میں ملا عمر کی حکومت قائم ہوچکی تھی ایک دن میرے کاروباری پارٹنر مجھے افغانستان گھمانے لے گئے ۔ایک صبح مجھے بتایا گیا کہ چیف جسٹس آج ایک قتل کا کیس سننے والے ہیں۔ ہم جب میدان پہنچے تو سینکڑوں لوگ فیصلہ سننے کے لیے موجود تھے کچھ دیر بعد ایک پک اپ میں چیف جسٹس کی آمد ہوئی جن کے ساتھ درجن بھر طالبان راکٹ لانچر اور مشین گن کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے۔

ماسکو میں پڑھے شخص کے لئے یہ منظر خاصا مضحکہ خیز تھا۔ جب مجھے میزبان نے بتایا کہ پچھلی بار ایک طالب کو بیگناہ شخص کو قتل کرنے کے جرم میں اسی میدان میں سر عام گولیاں مار دی گئی تھیں تو مجھے وحشت ہونی لگی۔ ہم عدم تشدد کے داعی تھے یہ بربریت دیکھنا میرے لئے مشکل ہورہا تھا مگر لوگ پرسکون ہوکر پورے منظرنامے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میں میزبان کی خاطر بادل نخواستہ ٹکا ہوا تھا۔ شنوائی شروع ہوگئی۔ قاتل کو میدان میں لایا گیا۔ انس نے جرم قبول کرلیا۔ چیف جسٹس نے مقتول کے ورثاء کو آدھے گھنٹے کا وقت دیا کہ قصاص یا دیت لینا ہے یا معاف کرنا ہے۔ چیف جسٹس اور عملہ پلاسٹک کی چٹائی پر بیٹھ کر سبز چائے پینے لگا۔

میں تصور میں قاتل کو چھلنی ہوتا دیکھ رہا تھا میرے اعصاب جواب دینے لگے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے قاتل کو نہیں مجھے مار دیا جائے گا آدھے گھنٹے بعد لواحقین کی آمد ہوئی کچھ دیر بات چیت کے بعد چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ لواحقین نے اللہ کی رضا کے لیے قاتل کو معاف کردیا ہے۔

پورے مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوائی فائرنگ کی گئی قاتل مقتول کے والد سے لپٹ کر اس کے ہاتھ چومے جا رہا تھا سبھی بہت خوش تھے مگر میں بہت زیادہ خوش تھا مجھے پہلی بار طالبان سے نفرت نہیں ہورہی تھی۔ گاڑی سٹارٹ ہوئی طالبان اس کے ساتھ لٹک گئے اور میں اس وقت کے چیف جسٹس اور موجودہ طالبان امیر ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کو جاتا دیکھ رہا۔

میں سمجھ گیا تھا جو سرپھرے افغان کسی عالمی قوت سے رام نہ ہوسکے اسے چند طالبان اگر رام کرسکے تھے تو اس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی ملا عمر کا برق رفتار، مفت اور بلا امتیاز انصاف۔

اب جب بھی میں کسی کیپٹن حماد کو سزا سے بچتے دیکھتا ہوں، کسی معصوم زینب کو لٹتے دیکھتا ہوں، کسی مسخ بلوچ کو دیکھتا ہوں، کسی محسود کو جعلی انکاونٹر کے نذر ہوتا دیکھتا ہوں، کسی بیگناہ کی نسلی مذہبی مسلکی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ دیکھتا ہوں، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں بے چینی پھیلتے دیکھتا ہوں تو مجھے قندھار کے میدان میں چٹائی پر بیٹھے ایک ملا کی عدالت یاد آجاتی ہے۔
ملا عمر سے نظریاتی اختلاف ہمیشہ رہے گا مگر کتنا آسان تھا اس کے دیس میں انصاف کا حصول۔

انصاف بڑی بڑی عمارتوں، عمدہ پوشاکوں، اعلی ڈگریوں اور نوح علیہ السلام کے عمر کا محتاج نہیں۔ اس کے لئے ایک پلاسٹک کی چٹائی اور ایک گھنٹہ کافی ہے بس منصف کی نیت انصاف دینے کی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).