بچی کو ٹرمینیٹ کرنے کا فیصلہ


مسلم میرانی صاحب نے اپنے مضمون کے ساتھ ایک خط بھیجا ہے۔ خط کا عنوان ہے ”آپ کے بچے کی ٹرمینیشن“۔ بخدا ہم تو دل تھام کر رہ گئے۔ ہمیں فلم ”دا ٹرمینیٹر“ نہایت پسند ہے مگر بچوں کی ٹرمینیشن کے ہم سخت خلاف ہیں۔ سکول جانے والے بچوں کا خاتمہ کرنا اچھی بات نہیں ہے۔

خیر میرانی صاحب کے مضمون سے علم ہوا تھا کہ ان کے دوست اشفاق حسین چانڈیو صاحب کی پانچویں جماعت میں پڑھنے والی بچی گھر نہیں پہنچی تو ان کی بیگم نے فون کر کے ان کو بچی کی گمشدگی کے بارے میں بتایا۔ وہ سکول پہنچے تو علم ہوا کہ بچی کو بطور سزا ڈھائی گھنٹے سے ایک اندھیرے کمرے میں بند کیا گیا تھا۔ ان کو بتایا گیا کہ اس کی دوسری بچی سے لڑائی ہوئی تھی جس پر بچی کو سزا دی گئی ہے۔

اگلے دن ان کے گھر خط بھیجا گیا جو پرنسپل نے خود اپنے نام لکھا تھا۔ اس میں بچی پر چند الزامات لگائے گئے تھے جن کا خلاصہ یہ ہے آپ کی بچی تقریباً ویسی ہی ہے جیسی ٹرمینیٹر فلم میں آرنلڈ شوارزنیگر تھا، یعنی دس برس کی عمر کی اس بچی نے تن تنہا سکول کے چھے بچوں، آیا اور متعدد اساتذہ کو زخمی کر دیا ہے۔ اس لئے اسے ٹرمینیٹ کر دیا گیا ہے۔

اب کوئی جے آئی ٹی ہی فیصلہ کر پائے گی کہ بچی خود ٹرمینیٹر ہے یا سکول نے اس خوف سے کہ بچی کو اندھیرے کمرے میں بند کرنے پر سکول پر مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے، اسے ٹرمینیٹر بنا دیا ہے۔ ہم تو صرف اس خط کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو مسلم میرانی صاحب نے ثبوت کے طور پر دیا ہے۔

یہ خط، اسلام آباد کے انگلش میڈیم سکول کی پرنسپل نے لکھا ہے۔ یہ خط انہوں نے بچی کے والد کی بجائے خود اپنے نام ہی لکھا ہے۔ سبجیکٹ ہے ”ٹرمینیشن آف یور چائلڈ“۔ ہماری انگریزی نہایت ہی کمزور ہے اس لئے اس کا مطلب ہمیں تو یہی سمجھ آیا ہے کہ پرنسپل نے بچی کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مزید تسلی کے لئے آکسفورڈ ڈکشنری دیکھی تو وہ بھی لفظ ٹرمینیٹ کے خوفناک مطالب دے رہی ہے۔ ٹرمینیٹ یعنی کسی چیز کا خاتمہ کرنا، حمل کو مصنوعی طریقے سے ختم کر کے بچہ گرانا، کسی کی ملازمت ختم کرنا، یا کسی کو قتل کر دینا۔

آگے چل کر پرنسپل نے خود کو ہی لکھے ہوئے خط میں بچی کے والد کو مخاطب کر کے بتایا گیا ہے کہ بچی ان۔وانٹڈ سرگرمیوں کی مجرم قرار پائی گئی ہے۔ سکول کے اساتذہ نے کئی مرتبہ اسے کنسول کیا ہے، یعنی تسلی دلاسہ دیا ہے کہ وہ اپنا رویہ بہتر کر لے لیکن اس تسلی دلاسے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا اس نے چھے بچوں، سکول کی آیا اور کئی اساتذہ کو زخمی کر دیا ہے۔ اس لئے سکول کے ڈائریکٹرز نے فوراً ہی بچی کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں آپ سے تعاون درکار ہے گو کہ بچی کے مزید کلاسیں لینے کی اجازت نہیں ہے۔

پرنسپل کچھ کنفیوز بھی ہیں کہ بچی کا ذکر کرنے کے لئے مناسب لفظ ”ہز“ ہے یا ”ہر“۔ اس لئے احتیاطاً انہوں نے دونوں استعمال کر دیے کہ کم از کم پچاس فیصد نمبر تو ملیں گے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر بچی کو کنسول (console) کرنے کی بجائے اس کی کاونسلنگ (counseling) کر دی جاتی۔ اور اگر اتنی ہی زیادہ ناراضگی تھی کہ بچی کو سکول سے نکالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا تو معصوم کو سکول سے ایکسپیل کر دیتے، اس معصوم کا خاتمہ ضرور کرنا تھا۔

بہرحال ہم تو بچی اور اس کے والدین کو مبارک باد ہی دیں گے کہ ان کی بچی ایسے انگریزی میڈیم سکول میں اب نہیں جائے گی جہاں ننھے ننھے بچوں کو ٹرمینیٹ کر دیا جاتا ہے اور پرنسپل کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ خط کیسے لکھا جاتا ہے۔

دس سالہ روپ فاطمہ کو سکول کے اندھیرے کمرے میں بند کیوں رکھا گیا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar