می ٹو: درندوں کے ہاتھوں ایک بچی کا جنسی استحصال


زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر دیکھ کر ہم لوگ کچھ دیر کو جاگے، احتجاج کیا اور پھر سے سو گئے۔ زینب کے بعد مردان میں اسماء بھی اسی درندگی کا نشانہ بنی۔ چونکہ ہمارا دل زینب کی لاش کی ڈھیروں ڈھیر تصاویر دیکھ کر سخت ہو چکا ہے تو اب ہمیں اسماء کے ساتھ کیا ہوا، کیوں ہوا اور کس نے کیا، سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر کسی کو فرق پڑتا ہے تو صرف ان کو پڑتا ہے جو خود اس ظلم سے گزرے ہیں یا جن کے پیارے اس درندگی کا نشانہ بنے ہیں۔

کچھ دن پہلے میری ایک بہت پرانی اور عزیز دوست نے مجھے فون کیا، زار وقطار رو رہی تھی، میں پریشان ہو گئی کہ جانے کیا بات ہے۔ کہنے لگی کہ زینب کے واقعے نے اس پر گہرا اثر کیا ہے۔ اس کی چھوٹی بہن بھی دس سال کی ہے۔ زینب کے قتل پر جب دھڑا دھڑ شوز ہو رہے تھے اور والدین سے کہا جا رہا تھا کہ اپنے بچوں کو اپنا بچاؤ کرنا سکھائیں اور انہیں اعتماد دیں تو اس نے بھی اپنی بہن کو چند ضروری باتیں بتانے کا سوچا۔ نور الہدیٰ شاہ کا ہم سب کے لیے لکھا ہوا ایک کالم بھی اسے پڑھ کر سنایا اور پھر اسے کہا کہ اگر کبھی کچھ ایسا ہو تو تم نے مجھے ضرور بتانا ہے۔ میں تمہاری بہن ہوں۔ میں تمہیں ڈانٹوں گی نہیں، جج نہیں کروں گی، برا بھلا نہیں کہوں گی بس تمہیں مجھ پر اعتبار کرنا ہے۔

اگلے دن جب اس کی بہن اس کے ساتھ بیٹھی اپنا ہوم ورک کر رہی تھی اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ آپی ایک بات بتاؤں؟ بہن کے ہمت دینے پر اس نے جو بتایا وہ سن کر میری دوست کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ سال کی گرمیوں کی چھٹیوں جب یہ پورا خاندان ان کے والد کے ایک کزن کے کزن کے گھر گئے تھے تو ایک دن موقع دیکھ کر والد کے ان کزن نے اس بچی کی معصومیت چھیننے کی کوشش کی۔ یہاں میں ان صاحب کا تعارف کروا دوں۔ ان کے والد کے یہ کزن لاہور کی ایک بڑی مسجد میں خطیب ہیں۔ بال بچوں والے ہیں اور اپنے حلقہ احباب میں کافی متقی و پرہیزگار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی ایک بچی ذہنی طور پر معذور ہے۔ اس بچی کا کمرہ ان کے گھر کے اوپر والے حصے میں ہے۔ خطیب صاحب کی اہلیہ نے اس بچی سے کہا کہ جا کر میری بچی کو ایک نظر دیکھ کر آؤ۔ وہ بچی گئی۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک دم سے کوئی اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کیا۔ بچی نے مڑ کر دیکھا تو خطیب صاحب تھے۔ انہوں نے بچی کو اٹھایا اور بستر پر پٹخا۔ اس کی شلوار اتاری اور پھر اپنے آپ کو شلوار کے بوجھ سے آزاد کیا۔ اتنے میں کوئی دھڑ دھڑ دروازہ بجانے لگا وہ گھبرا گئے۔ فوراً اٹھے، کپڑے پہنے، بچی کو شلوار پہنا کر کسی کو نہ بتانے کی دھمکی دی اور باہر چل دیے۔

یہ سن کر میری دوست کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اس کا دماغ شائیں شائیں کرنے لگا، اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے دماغ پر پتھر برسا رہا ہے۔ اس کی بہن اس ننھی عمر میں کس کس عذاب سے گزرتی رہی اسے پتا ہی نہیں چلا۔ پھر اسے یاد آیا کہ ایک ہفتہ پہلے یہ بچی ٹیوشن جانے سے منع کر رہی تھی۔ اس نے ڈھیروں تسلیاں اور مختلف وعدے دے کر اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ جہاں اسے ٹیوشن پڑھنے بھیجا جاتا ہے وہاں بھی اس کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔

یہ بچی جن خاتون کے گھر ٹیوشن پڑھنے جاتی تھی ان کی اپنی چار سالہ بیٹی تھی۔ ان خاتون کا ایک بھانجا ان کے پاس رہنے کے لیے آیا ہوا تھا۔ اس بچی نے بتایا کہ ایک دن جب میں گھر میں داخل ہوئی وہ مجھے پاس بنی ایک ڈیوڑھی میں لے گیا اور میرے ہونٹوں پر بوسے کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے مجھے اپنے موبائل پر ایک فحش فلم دکھائی اور کہا کہ ہم نے بالکل ایسا ہی کرنا ہے۔ اس بچی نے بتایا کہ ان خاتون کی چار سالہ بیٹی نے بھی اسے بتایا ہے کہ بھائی اس کی شلوار اتارتے ہیں۔

میری دوست بہت پریشان تھی۔ اپنی بہن کے منہ سے یہ سب سن کر اس کے دل پر کیا بیتی، میں اور آپ اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ کہنے لگی کہ والدہ کو بلڈ پریشر کا مسئلہ ہے تو والد ذیابطیس کے مریض ہیں۔ انہیں بتاؤں تو انہیں ٹینشن دینے والی ہی بات ہے۔ ہم نہ اب گزرا وقت واپس لا سکتے ہیں نہ اپنی بچی کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ جو تکلیف ہے یہ مجھے اندر سے کاٹے چلے جا رہی ہے۔ دل کر رہا ہے اس دنیا کو آگ لگا دوں مگر میں بے بس ہوں۔ جب جب اپنی بہن کا معصوم چہرہ دیکھتی ہوں میرے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی بچی کو ایک محفوظ ماحول ہی نہیں دے سکے؟ اتنا دھیان رکھنے کے باوجود ہماری بچی کے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا اور ہمیں خبر ہی نہ ہو سکی؟ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس ظلم کو قلم بند کر کے عوام تک پہنچا دوں تاکہ مزید زینب اس ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).