عمران خان سے روحانی معرفت کے دوران انٹرویو


صحافی: عمران خان صاحب یہ آپ نے کیا کہہ دیا؟ پارلیمنٹ !جس کا آپ حصہ ہیں اسی پر لعنت بھیج دی، یعنی خود پر ہی۔ ۔۔۔

عمران خان: میں نے بالکل ٹھیک کہا، میں لعنت بھیجتا ہوں اس پارلیمنٹ پر جس نے نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنایا۔

صحافی: لیکن سر، آپ اس پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، بڑے نامور سیاستدان اس پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ دنیا بھر میں منتخب ادارے کا ایک مقام ہوتا ہے، پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے، یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ یہ جسارت تو کسی ڈکٹیٹر کے دور میں بھی کسی بڑے سے بڑے سیاستدا ن نے نہیں کی۔

عمران خان: آپ بتائیں، کیا عوام کے نمائندے ایسے ہوتے ہیں؟

صحافی: خان صاحب آپ بھی تو عوام کے منتخب نمائندے ہیں؟

عمران خان: میں تو عوام کے ووٹ لے کر آیا ہوں، یہ تو دھاندلی کی پیداوار ہیں۔

صحافی: سپریم کورٹ میں تو آپ دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے اور پینتیس پنکچر والا الزام تو آپ نے خود واپس لے لیا تھا؟

عمران خان: ہم نے تو بوریاں بھر کر ثبوت پیش کئے، لیکن سپریم کورٹ نے ہماری ایک نہ سنی، ہم اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔ میں اپنی بات پر قائم ہوں، لعنت تو بڑا چھوٹا لفظ ہے اس پارلیمنٹ کے لئے۔

صحافی: لیکن سر، پانچ برس ہونے کو آئے آپ خود اس پارلیمنٹ کا حصہ ہیں؟

عمران خان: ہم نے تو استعفے دے دئیے تھے، ایازصادق نے استعفے قبول ہی نہیں کئے۔ ہم تو پھر مجبوری میں واپس اسمبلی میں گئے تھے۔ اب میں پرویز خٹک سے مشاورت کروں گا کہ شیخ رشید کی پیروی کی جائے یا نہیں۔

صحافی: مجبوری کیسی سر؟ پانچ برس ہورہے ہیں آپ تو اس پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانا آپ کو گوارا نہیں لیکن رکن ہونے کی حیثیت سے تنخواہ اور مراعات ضرور حاصل کر تے ہیں اور ہر ضمنی الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں تاکہ اس پارلیمنٹ کا حصہ بن سکیں؟

عمران خان: وہ تو میرا حق ہے، عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی حیثیت سے تنخواہ اور مراعات میرا حق ہے۔

صحافی: توپھر آپ پارلیمنٹ پر لعنت کیوں بھیج رہے ہیں؟

عمران خان: اس لئے کہ میں نے ستر لاکھ ووٹ لئے۔ میں ہمیشہ نمبر ون رہا ہوں لیکن مجھے اس پارلیمنٹ میں دائیں طرف ایک نمبر کرسی الاٹ نہیں کی گئی۔ بائیں طرف والی ایک نمبر کرسی کے لئے بھی کوشش کی لیکن اس پر خورشید شاہ کا قبضہ ہے۔

صحافی: تو اب آپ کا لائحہ عمل کیا ہے؟

عمران خان: میں نے تو لاہور جلسے میں کہہ دیا ہے کہ علامہ طاہرالقادری جدھر لے جائیں گے ہم جائیں گے۔

صحافی: خان صاحب، وہ تو آپ کو اسلام آباد کے دھرنے میں اکیلا چھوڑ گئے تھے؟

عمران خان: دیکھیں آپ ان دو چیزوں کو گڈ مڈ نہ کریں، وہ ایک الگ معاملہ تھا یہ الگ ایشو ہے۔ اب ہم علامہ طاہرالقادری کے ساتھ ہیں اور انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم ٹکرا گئے تو بڑے بڑے سمندر شرما جائیں گے۔ میرا پیغام ہے کہ نوجوانو! جب لاہور نکلے گا، پورا پاکستان نکلے گا تو ان شریفوںکو جان بچانی مشکل ہو جائے گی۔

صحافی: لیکن سر میڈیا تو کہہ رہا ہے کہ لاہور کا جلسہ عوامی شرکت کے لحاظ سے کوئی اچھا شو نہیں تھا۔

عمران خان: یہ سب بکاؤ میڈیا کی باتیں ہیں، بیس کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہے۔

صحافی: جناب !علامہ صاحب تو چار سال سے ٹکرانے اور پاش پاش کرنے بارے فرما رہے ہیں، وہ ٹکراتے کیوں نہیں؟

عمران خان: انہوں نے کہہ دیا ہے کہ تمام پارٹیوں کی مشاورت سے دو دن میں اعلان کریں گے۔

صحافی: اس طرح کے اعلانات تو وہ پہلے بھی بہت کر چکے ہیں اورپھر اپوزیشن پارٹیوں میں سے پیپلزپارٹی بھی ایک بڑی جماعت ہے جس کے ساتھ آپ بیٹھنا پسند ہی نہیں کرتے؟

عمران خان: زرداری سب سے بڑا ڈاکو ہے، اسی لئے لاہور کے جلسے میں میں زرداری کے ساتھ سٹیج پر نہیں بیٹھا لیکن آپ چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، ہم علامہ طاہرالقادری کے ساتھ ہیں اور آصف زرداری نے بھی لاہور کے جلسے میں طاہرالقادری زندہ باد کا نعرہ لگایا ہے۔

صحافی: خان صاحب !علامہ طاہرالقادری تو ان کو وقت کا یزید کہتے تھے؟

عمران خان: ہاں لیکن بعد میں ان کی صلح ہو گئی تھی اور انہوں نے اپنے کنٹینر میں پیپلزپارٹی کے وزرا کا گرمجوشی سے استقبال بھی کیا تھا؟

صحافی: مطلب اب آپ علامہ صاحب کی قیادت میں چلیں گے۔

عمران خان: میں نے یہ تو نہیں کہا، آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہماری اپنی پارٹی ہے، ہمارا اپنا منشور ہے۔

صحافی: جناب، لیکن قادری صاحب نے تو لاہور کے جلسے میں فرمایا ہے کہ تفریق اتنی زیادہ ہے کہ کسی ایک نقطے پر جمع ہونا ناممکن ہے؟

عمران خان: دیکھیں آپ چیزوں کو آپس میں گڈ مڈ نہ کریں، نواز شریف نے ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کیوں کی؟

صحافی: خان صاحب، پارلیمنٹ کی جس کمیٹی نے اس قانون کو حتمی شکل دی تھی اس میں تو آپ کی جماعت تحریک انصاف کی پوری نمائندگی تھی؟ آپ صرف مسلم لیگ ن کو دوش کیوں دے رہے ہیں؟

عمران خان: اسی لئے تو میں اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہا ہوں۔ میں تو پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ شکر ہے ہمیں مرکز میں حکومت نہیں ملی ورنہ ہم ناتجربہ کاری کی وجہ سے مار کھا جاتے۔

صحافی: جناب، قصور میں معصوم زینب کے ساتھ جو ہوا وہ بہت افسوسناک ہے لیکن اس سے پہلے بھی بارہ کے قریب بچوں اور بچیوں کے ساتھ یہی ظلم ہوا لیکن آپ اور آپ کی اتحادی جماعت اسلامی کے سربراہ سمیت کسی پارٹی کے سربراہ نے ان بچوں کے والدین سے اظہار افسوس کرنا بھی گوارا نہیں کیا، کیوں؟

عمران خان: میں تو پہلے بھی کہہ چکا ہوں، یہ بکاؤ میڈیا ہے۔ یہ اپنے مفادات کے لئے کسی کو بھی بیچ دیتے ہیں۔ کوئی ٹی وی والا ان بچوں اور بچیوں کے گھر نہیں گیا، اگر یہ ان کے گھر نہیں جائیں گے تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا؟

صحافی: خان صاحب، آپ نے یا آپ کی اتحادی جماعت اسلامی کے سربراہ نے تو مردان کی معصوم مظلومہ عاصمہ کے والدین کے گھر جاکر تعزیت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔

دراصل ابھی میں اس پر سوچ رہا ہوں لیکن ہم نے صوبے میں پولیس کو آزاد کردیا ہے، میں نے یہ بھی کہا ہے کہ شہباز شریف اگر وہاں گیا تو اس کو انڈے اور ٹماٹر پڑیں گے۔ عوام ان سے نفرت کرتے ہیں۔

انٹرویو مکمل کر کے صحافی باہر نکلا تو آئی فون کے نئے ماڈل میں فیس بک پر نظر دوڑائی۔ پہلا سٹیٹس کچھ اس طرح تھا۔ ۔۔۔۔۔

پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے ایک تو پارلیمنٹ سے دفع ہو جائیں۔

دوسرا، اگلے الیکشن میں اس میں گھسنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔

تیسرا، کوئی اور کام کریں جسے عزت دے سکیں۔

شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).