چیف جسٹس صاحب: خود ستائی اچھی روایت نہیں


سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے ایک بار پھر اپنی اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تعریف کے پل باندھے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں شامل جج نہات قابل اور ایماندار ہیں۔ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر سپریم کورٹ کی کارکردگی، خود مختاری اور ایمانداری کے حوالے سے زور دار بیان دینا ضروری سمجھا ہے۔ وہ اسی طرح کا بیان گزشتہ ماہ کے دوران ایک تقریر میں بھی دے چکے ہیں جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں پر تنقید کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جج کسی دیہات کے بابا کی طرح ہوتا ہے جو سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے ، کسی کے ساتھ زیادتی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے کہ اس کا ہر ادارہ اپنی بڑائی، دیانتداری اور خود مختاری کا ڈھنڈورا پیٹنا ضروری سمجھتا ہے۔ چیف جسٹس کے اس رویہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر انہیں کیوں بار بار اپنی قابلیت اور خودمختاری کا دعویٰ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

آج کی گئی تقریر میں جسٹس ثاقب نثار نے صرف اپنے بنچ میں شامل ججوں کی انصاف پسندی کی توصیف ہی نہیں کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ نہایت قابل اور خود مختار بھی ہیں اور قانون کے عین مطابق فیصلے کرنے پر قادر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جج ہونا آسان کام نہیں ہے اور اس منصب تک پہنچنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس آف پاکستان کو خود پر یقین نہیں یا وہ بھی ملک میں جاری مباحث سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ ان کا حصہ بننا ضروری سمجھتے ہیں۔ گزشتہ چند برس سے ججوں کے ریمارکس اور ان کی تشہیر کے طریقہ سے ملک کی عدالتوں اور ججوں کے لائم لائٹ میں رہنے کی خواہش کا پتہ چلتارہا ہے ۔ حالانکہ ججوں کو شہرت سے غرض نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان کا منصب اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ خود توجہ کا مرکز نہ بنیں۔ اب چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک قدم آگے بڑھا کر سپریم کورٹ کے ججوں کے قصیدے بیان کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ، اس سے تو یوں لگتا ہے کہ وہ عدالت عظمی کے چیف جسٹس نہیں ہیں بلکہ اس کے پبلسٹی افسر کا کردار نبھا رہے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ سپریم کورٹ کا جج بننے کے لئے اعلیٰ قابلیت اور وسیع تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ ملک کی اعلی ٰ ترین عدالت سے ہر کسی کو انصف کی امید کرنی چاہئے اور وہاں پر بیٹھے جج فیصلے کرتے وقت نہ صرف یہ کہ کسی کے عہدہ اور پوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے کسی کو اس لئے بھی معتوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ متعلقہ شخص کسی خاص عہدہ پر مامور ہے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کا منصب عدالتی نظام میں ایک ایسا رتبہ ہے جہاں پہنچنے والا شخص شہرت، لالچ اور خوف کا شکار نہیں ہوتا ۔ اسی لئے سب لوگ کم از کم سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہاں قانون کے مطابق ہی فیصلے ہوں گے اور جج کسی قسم کی ترغیب یا تحریص سے متاثر نہیں ہوں گے۔ جو بات عام طور سے تسلیم کی جاتی ہے اور جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ اور دیگر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تکریم کی جاتی ہے، اس کے بارے میں شبہ پیدا کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جو بھی ایسی کوشش کرتا ہے، اسے خود اس کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں ایسی کیا بات ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ ضروری سمجھا ہے کہ وہ ان باتوں کو دہرانا شروع کردیں جو طے شدہ ہیں اور جن کے بارے میں شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس قسم کے رویہ سے تو یہ شبہ پیدا ہونے لگے گا کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات یا تو اخباروں اور سوشل میڈیا پر ہونے والے مباحث کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں یا ملک کے اس اعلیٰ ترین ادارے میں کوئی ایسی ’کمزوری ‘ موجود ہے جس کی وضاحت کے لئے چیف جسٹس کو بار بار میدان میں نکلنا پڑتا ہے۔

ملک کی عدالتیں اگر انصاف فراہم کررہی ہوں اور اگر ان سے باندھی جانے والی توقعات پوری ہورہی ہوں تو نہ تو ججوں کو یہ یقین دلوانا پڑے گا کہ وہ دیانتدار اور انصاف پسند ہیں اور نہ ہی ان کی نیت اور ارادوں پر سوال اٹھانے والوں کی بات کو کوئی اہمیت دی جائے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر عدالتوں کے جج عدالتی فیصلوں کو بہتر بنانے ، انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی بنانے اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کا مظاہرہ کرنے کی بجائے تقریروں میں اپنی قابلیت اور قانون پسندی کی دلیلیں دے کر رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے تو شبہات کو تقویت ہی ملے گی۔ ملک کے کسی نہ کسی کونے میں بیٹھا کوئی لاتعلق شخص ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ جج فیصلے کرنے کی بجائے تقریروں میں اپنے انصاف کی تعریف کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی ملک کے چیف جسٹس کو تقریر کرنے سے نہیں روک سکتا۔ لیکن انہیں بات کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کہیں ان کی باتوں سے فضا صاف ہونے کی بجائے مزید الجھنیں اور غلط فہمیاں نہ پیدا ہوں ۔

ملک کے ہر ادارے کو آئین کے مطابق اپنا کام کرنا چاہئے۔ اس کی ذمہ داری سپریم کورٹ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے لیکن اگر سپریم کورٹ ہی اپنے اقدامات سے آئین کا تحفظ کرنے یا اپنے عمل سے آئینی حدود سے تجاوز کرتی دکھائی دینے لگے تو امید کی رہی سہی کرن بھی ختم ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ ماضی میں جب بھی فوج نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے اختیار سے تجاوز کیا اور ملک کی سیاسی حکومت کو برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت اس اقدام کو درست تسلیم کیا اور پھر فوجی آمروں کے پی سی او پر حلف لے کر آئین کی بجائے ایک آمر کی وفاداری کا اقرار کرنا بھی ضروری خیال کیا۔ اس طرح اگر ملک کی فوج آئین شکنی کی مرتکب ہوئی ہے تو سپریم کورٹ بھی خود کو اس آئین شکنی کی معاونت کے جرم سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ 2007 میں چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجہ میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا ایک نیا روپ سامنے آئے گا۔ لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس تحریک کے نتیجہ میں ملنے والے اختیار اور اعتماد کو اپنی ذاتی شہرت اور کار سرکار میں غیر ضروری مداخلت کا لائیسنس سمجھتے ہوئے قانون کی حکمرانی کا اہتمام کرنے کی بجائے ذاتی تشہیر اور سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ سے بھی بڑ ا ادارہ قرار دینے کی روایت ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ مزاج اب بھی کسی نہ کسی صورت میں سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ججوں کے ریمارکس میں دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔

جمہوریت میں حکومت ایک سیاسی ادارہ ہے جو لوگوں کے ووٹوں سے قائم ہوتا ہے اور حکومت کے ارکان ہر پانچ برس بعد اپنی کارکردگی کا حساب لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس فوج ہو یا سپریم کورٹ وہ منتخب نہیں بلکہ پروفیشنل ادارے ہیں جنہیں مقررہ طریقہ کار کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں ادارے بھی ملک کے اقتدار اور اہم قومی فیصلوں میں حصہ دار بننے کو اپنا بنیادی حق ماننے یا تسلیم کرنے لگیں گے تو آئین کی سربلندی کا کام ہمیشہ ادھورا رہے گا۔ جسٹس ثاقب نثار اگر اپنی دیانتداری کی وضاحتیں کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کو امور مملکت سے دور رکھنے اورحکومتی عمال کے کاموں میں مداخلت سے گریز کی پالیسی کو اپنا سکیں اور دیگر اہم اداروں کو بھی آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنے کا پابند کرسکیں تویہی ان کی دیانتداری اور آئین پسندی کا سب سے بڑا ثبوت ہوگا۔ پھر انہیں خود کوئی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی بلکہ عدالتی بالادستی اور غیر جانبداری کی ایسی اعلیٰ مثال جنم لے سکے گی جو ججوں کو تو قابل رشک بنائے گی ہی، ملک کے باقی ادارے بھی اس روایت پر عمل کرنے پر مجبور ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali