ہمارے بچے کیا پڑھ رہے ہیں ؟


\"ghaffer\"ابتدائی تعلیم کے سال بچوں کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ماں کی گود اور گھر کے ماحول سے کچھ باتیں سیکھنے کے بعد جب کوئی بھی بچہ یا بچی پری نرسری یا نرسری میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی عمر ڈھائی سال سے ساڑھے تین یا چار سال تک ہوتی ہے۔ زندگی کے یہ وہ ابتدائی سال ہیں جب بچہ اپنی زبان، لب و لہجہ اور اپنی آنکھوں پر اعتبارکرنا سیکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں دن رات سوالات سلگتے رہتے ہیں۔ مگر ان کے جوابات کو وہ تلاش نہیں کر پاتا۔ کہیں وہ خاموش رہتا ہے، کہیں بول پڑتا ہے، کہیں وہ کچھ مفروضے قائم کرتا ہے اور کچھ موقعوں پر وہ حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ اس کی یہ حیرت اپنی معصومیت کے ساتھ بہت ہی فطری ہوتی ہے جو بہت بھلی لگتی ہے۔

بچوں کی اس عمر میں ان کے والدین ان کے لئے پاگل ہوتے ہیں، ان کی فرمائش کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے محدود ذرایع سے کہیں بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔اس میں ان کی اپنی طمانیت بھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے معاملے میں یہی وہ عمر ہوتی ہے جب والدین کا استحصال کیا جا سکتا ہے، اور یہ بات ہمارے پرائیویٹ سیکٹر کے اسکولوں کے مالکان بہت اچھی طرح جان گئے ہیں۔ اسی لیے وہ اسی عمر کے بچوں کے لیے دھڑا دھڑ سکول کھول رہے ہیں، من مانی فیسیں وصول کرتے ہیں اور ایک سے دو اور دو سے دس اسکول کی شاخیں کھل جاتی ہیں، کاروبار بڑھ جاتا ہے، آمدن میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ایسے کاروباری حضرات کو فیکٹریاں کھولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اسکول ان کی فیکٹریاں اور بچے ان کی پراڈکٹ ہوتے ہیں۔اس پراڈکٹ کی تیاری میں وہ والدین سے کچھ بھی مانگ سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ فیسیں وصول کرنے کے لیے کاروباری لوگ شہر کی مہنگی جگہوں پر کوٹھیاں کرائے پر لیتے ہیں، انہیں فکر نہیں ہوتی اس لیے کہ ان کوٹھیوں کا کرایہ تو والدین کی جیبوں سے نکلنا ہوتا ہے۔ ایسے پوش علاقوں میں سکول کھول کر وہ فیس کی مد میں جتنا چاہیں ، تقاضا کر سکتے ہیں۔ایسے سکولوں کے دائیں بائیں کئی سو فٹ کے فاصلے پر گھروں کی قیمتیں گر جاتی ہیں، کوئی ایسے گھروں کو خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سڑک پر صبح اور دوپہر ، سکول کے آغاز اور چھٹی کے وقت ٹریفک کا وہ دباﺅ ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ! لوگ گھنٹوں کے حساب سے بعض اوقات اس ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں۔

اب دو ڈھائی سال کے بچے کو والدین صبح سکول چھوڑ جاتے ہیں، اور ایک ڈیڑھ بجے واپس لینے آ جاتے ہیں۔ والدین کے اولین اور لازمی فرائض میں یہ بھی شامل ہے اس لیے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت موجود نہیں ہے۔ سکول کی کلاسز میں والدین کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی، وہ انتظار گاہ میں بیٹھتے ہیں، جہاں بچے کو ان کے لیے بلا لیا جاتا ہے وگرنہ سکول کے باہر ہی بچے کو ڈراپ کرتے ہیں اور باہر ہی سے ان کو واپس لے جاتے ہیں۔ میں نے ایک روز اپنی تین سال کی بیٹی سے پوچھا کہ آپ سکول جا کر کیا پڑھتی ہیں؟ کہنے لگیں کہ سو جاتی ہوں۔ سو جاتی ہوں؟ کیا مطلب؟ پڑھائی وغیرہ…. نہایت معصومیت سے کہنے لگی، بابا پڑھائی کے لیے نہیں ہم تو کھیلنے جاتے ہیں۔اور کھیل کے بعدجب تھک جاتے ہیں، مس کہتی ہیں، ”Close your eyes, Go to sleep “ اور ہم قالین پر سو جاتے ہیں۔ پھر لنچ ٹائم پہ اٹھتے ہیں، میزوں پر اپنا لنچ رکھتے ہیں، مس کو جس کا لنچ پسند ہوتا ہے، وہ ٹیسٹ کرتی ہے اور پھر ہم لنچ کھا لیتے ہیں“۔ بیٹی کی بات سن کر میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، عام سکولوں میں والدین بارہ سے پندرہ ہزار روپئے ماہانہ کے حساب سے بچوں کی اس ابتدائی تعلیم کے لئے فیس کی ادائیگی کرتے ہیں۔دو سے تین ماہ کی فیس یکمشت لے لی جاتی ہے۔

جب میری بیٹی کلاس تھری میں پہنچی تو ایک بار پھر مجھے اس نے حیران کر دیا۔ ہر مہینے ٹیسٹ ہوتے ہیں، رزلٹ آتے ہیں اور میں بہت فخر محسوس کرتا تھا ، اس لئے کہ بیٹی ہر مضمون میں بیس میں سے عام طور پر اٹھارہ یا انیس نمبرحاصل کرتی۔ والد ہونے کے ناطے مجھے اس بات پر فخر تھا، میں دوستوں کو بتاتا اور دوست بھی بتاتے کہ ان کے بچے بھی پڑھائی میں ایسے ہی اچھے جا رہے ہیں۔ ایک بار میتھ کا امتحان تھا، ان دنوں ٹیوٹر بوجوہ نہیں آ رہا تھا اور مجھے بیٹی کو ریاضی کی تیاری کروانا پڑ گئی۔ بہت چھوٹے چھوٹے سوال تھے مگر، اسے سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ کئی دن کی کوشش کے بعد اسے کچھ سوالات کی سمجھ آئی تو پہلا سوال میرا خود سے یہی تھا کہ ٹیوٹر کیا پڑھا رہا ہے؟ سکول والوں نے تو والدین کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں کہہ دیا تھا کہ ایک ٹیچر کے لئے ہر بچے کو وقت دینا ممکن نہیں ہے، اس لئے ٹیوٹر کا ابھی سے بندوبست کر لیں۔ خیر اگلے دن جب بیٹی کو لے کر میں گھر آیا تو اس سے پریشانی میں پوچھ بیٹھا کہ کتنے نمبر آئے ہیں؟ کہنے لگی، بیس میں سے بیس، فل مارکس اور میڈم نے سٹار بھی دیا ہے۔ ایک لمحے کے لئے تو میں بہت خوش ہوا کہ چند دن پڑھانے کے بعد بیٹی کو پورے مارکس مل گئے ہیں۔ مگر اگلا لمحہ پریشانی والا تھا۔ میں نے ایک بار پھر بیٹی سے پوچھ لیا تھا۔ اب کی بار تو میں بہت ہی حیران ہوا۔ کہنے لگی کہ جب امتحان ہوتا ہے، تو ہم میڈم کو ہر سوال چیک کروا دیتے ہیں، اگر غلط ہو تووہ ٹھیک کر دیتی ہیں، اگر سب کا غلط ہو تو تختہ سیاہ کہ جسے اب وائٹ بورڈ کہا جاتا ہے، اس پر لکھ دیتی ہیں، جسے دیکھ کر سب لکھ لیتے ہیں۔ ہر مضمون میں سو فیصد نمبر دلوانے کا یہ طریقہ نہایت چالاکی سے اختیار کیا گیا تھا۔ کسی کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اصل صورت حال کیا ہے؟

اب میں نے بیٹی کی ہوم ورک کی کئی کاپیاں چیک کیں۔ ان پر کئی سوالات کے جوابات غلط لکھے گئے تھے، مگر انہیں درست قرار دیا گیا تھا، کئی جگہوں پر املا کی غلطیاں تھیں مگر نظر انداز کر دی گئی تھیں۔یہ سب دیکھ کر بہت پریشانی ہوئی۔کون کس کو دھوکا دے رہا ہے، ٹیچر سکول والوں کو دھوکا دے رہی ہیں؟ والدین کو دھوکا دیا جا رہا تھا؟ نئی نسل کو دھوکا دیا جا رہا تھا؟اتنی بڑی بڑی فیسیں وصول کر کے بھی سکول میں پڑھائی کی ذمہ داری سے ٹیچر نے صاف انکار کر تے ہوئے کہا تھا کہ ٹیوٹر رکھیں۔ ٹیوٹر بھی رکھا ہوا تھا مگر پھر بھی ، تعلیم اس سطح کی نہیں ہو رہی تھی۔

اب کی بار جب Parents-Teacher میٹنگ کا وقت آیا تو میں نے بیوی کے ساتھ خود جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک خوبصورت سیٹ سجایا گیا تھا، ایک سلیقے کے ساتھ ہر کلاس میں اس کے سٹوڈنٹس کی کاپیاں اور ہوم ورک ترتیب سے رکھا گیا۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ہماری باری بھی آ گئی۔ ٹیچر نے رزلٹ فخریہ انداز سے دکھایا اور کہا کہ آپ کی بیٹی بہت ذہین ہے،ہر مضمون میں فرسٹ سیکنڈ آتی ہے، کھیل میں بھی بہت دلچسپی لیتی ہے، ماشااللہ بہت ہی Brilliant ہے۔ اب جب میں نے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اس کے سامنے رکھے تو ٹیچر کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی، کہنے لگی، ’یہی ہمارا طریقہ تعلیم ہے، ہم بچوں پر دباﺅ نہیں ڈالتے، ان کے لئے ہم سہولت کار کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، ہم ان کو پڑھنے میں مدد دیتے ہیں، پڑھاتے نہیں، پڑھنا انہوں نے خود ہی ہوتا ہے، یہی نیا طریقہ تعلیم ہے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments