کیا کم عمری کی شادی سے جنسی جرائم کا خاتمہ ممکن ہے؟


جنسی جرائم یا فحاشی کی بات جب بھی آئے تو ایک حل فوراً سامنے آتا ہے کہ ”نکاح کو آسان کر دیا جائے اور بالغ ہوتے ہی بچوں کی شادی کر دی جائے تو جنسی جرائم اور فحاشی کا خاتمہ ہو جائے گا“۔ آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس حل پر عمل کرنے سے کیا ہو گا۔

بچی کی بلوغت کی عمر تقریباً نو برس اور بچے کی بارہ برس بیان کی جاتی ہے۔ یعنی آج کل کے حساب سے دیکھیں تو چوتھی جماعت کی بچی اور ساتویں جماعت کا بچہ بالغ ہو جاتا ہے۔ اب جدید طرز زندگی اور خوراک کی وجہ سے بلوغت کی عمر اس سے بھی کم ہو رہی ہے۔ چوتھی جماعت کی بچی کی شادی کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ شادی کے بعد بھی تعلیم جاری رکھے گی اس لئے ہم یہ اعتراض نہیں کریں گے کہ وہ کم تعلیم یافتہ رہ جائے گی۔ لیکن میڈیکل سائنس کے مطابق کم عمری میں حاملہ ہونا بچی کو دائمی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں پندرہ سے انیس برس کی عمر کی لڑکیوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ حمل اور پیدائش کی پیچیدگیاں ہیں۔ دس سے انیس سال کی عمر کی ماں کے بچوں میں قبل از وقت پیدائش، کم وزن اور دیگر مسائل بیس سے چوبیس برس کی عمر کی ماؤں کے بچوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ بن ماں کے ننھے بچے یا شدید بیمار بچے کیسے پلیں گے؟ ان کے علاج کا خرچہ کون اٹھائے گا؟

صحت کے علاوہ اگلا مسئلہ معاشی ہے۔ کیا چوتھی کلاس کی بچی اور ساتویں کلاس کا بچہ خود سے ملازمت یا کاروبار کر کے اپنے خاندان کا خرچ اٹھا سکتے ہیں؟ اس عمر میں کام کرنے کے لئے ان کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑے گی۔ اس انتہائی کم تعلیمی قابلیت کے ساتھ ان کو کون سی جاب ملے گی؟ کیا اس کم عمر بچے کا وہی حال نہیں ہو گا جو ہم ورکشاپوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں کام کرنے والے بچوں کا ہوتا دیکھتے ہیں؟ کیا وہ اس عمر میں پیسہ کمانے کی کوشش میں ویسے ہی جنسی استحصال کا نشانہ نہیں بنیں گے جیسے یہ بدقسمت ملازمت پیشہ بچے بنتے ہیں؟ کم عمری کی شادی کو مسائل کا حل بتانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ عورتوں کو جاب نہیں کرنی چاہیے۔ اس لئے بڑے ہو کر بھی لڑکیوں کے جاب کرنے کے امکانات کم ہیں۔ لیکن بفرض محال کر بھی لی تو کون سی جاب کریں گی؟ گھر میں ماسی کی یا فیکٹری میں ورکر کی؟ جاب کی تو کیا وہ بھی اسی جنسی ہراسانی کا شکار نہیں ہوں گی جس سے ان کو بچانے کا دعوی کیا جا رہا ہے؟

اگر یہ دلیل دی جائے کہ اس ننھے جوڑے کا باپ ان کا خرچہ اٹھا لے گا تو پھر یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں اگر افراد خانہ کی اوسط تعداد چھے بھی نکالی جائے تو ان کے لئے کمانے والا ایک شخص ہوتا ہے۔ اب فرض کریں کہ چار بچوں میں سے دو لڑکے ہیں اور ان کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے، تو بیس برس کی عمر میں بی اے کرنے کے فوراً بعد بھی اگر ان کو ملازمت مل جاتی ہے تو اہل خانہ کی کل تعداد اس وقت تک کیا ہو گی؟ بارہ برس کی عمر میں اس کی شادی اور بیس برس میں ابتدائی انکم شروع ہونے تک اس کے چار بچے تو ہو چکے ہوں گے۔ یعنی اب خاندان کی کل تعداد چودہ افراد پر مشتمل ہے اور کمانے والا صرف ایک ہے۔ اس صورت میں وہ ان سب اہل خانہ کی خوراک، تعلیم اور صحت پر کتنا پیسہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں ہو گا؟ اس کے بعد شادی بیاہ اور دیگر خرچ نکال لیں۔ کیا یہ خاندان زندہ رہ پائے گا؟ فرض کریں کہ خاندان کے سربراہ کی آمدنی تیس ہزار ہو تو اس میں گھر کا کرایہ، بجلی وغیرہ کا بل بارہ ہزار نکال لیں۔ خوراک کا چھے ہزار کر لیں۔ سکول دفتر آنے جانے کا خرچہ دو ہزار کر لیں۔ باقی دس ہزار میں چودہ افراد نے تیس دن کیسے نکالنے ہیں؟

اور جب یہ چودہ افراد چھے ہزار کے کرائے والے ایک یا دو کمروں کے مکان میں رہ رہے ہوں گے جس میں کم از کم تین شادی شدہ جوڑے موجود ہوں، تو ننھے ننھے بچے بھی ہر روز ”فحاشی“ دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔ کیا اس سے وہ خود اثر نہیں لیں گے؟

اچھا اس کو بھی چھوڑ دیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ہر شہری دو لاکھ روپے مہینے کے کما رہا ہے اور چودہ اہل خانہ کو نسبتاً خوشحال زندگی دینے پر قادر ہے۔ اب اگر ہر بیس سال بعد ملک کی آبادی میں تین گنا اضافہ ہو رہا ہو، تو ریاست ان سب شہریوں کو رہائش، صحت، تعلیم اور روزگار کیسے فراہم کر پائے گی؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ بھوکے مریں گے۔ جو شخص دو لاکھ روپے ماہانہ کما رہا ہے، اس کے بچوں کو اگر بیس ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی بھی ہو جائے تو وہ خوش قسمت ہوں گے۔

یعنی اگر آپ نے قوم کو جاہل بنانا اور بھوکا مارنا ہے تو پھر ہی یہ ”حل“ بروئے کار لانا چاہیے۔

اب یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کیا کم عمری میں شادی کرنے سے ملک بھر میں فحاشی کا سدباب ہو جائے گا؟ جب لڑکی نو برس سے ماں بننے لگے گی تو بیس برس کی عمر تک اگر وہ زندہ بھی رہی تو اس کی صحت اس حد تک جواب دے چکی ہو گی کہ وہ پچاس برس کی بڑھیا دکھائی دینے لگے گی جب کہ اس کے تئیس سالہ شوہر کی جوانی ابھی شروع ہی ہوئی ہو گی۔ اس صورت میں یا تو وہ دوسری شادی کر لے گا اور موجودہ بیوی بچوں کو (خرچ نہ اٹھا پانے کے سبب) ان کے حال پر چھوڑ دے گا، یا پھر دوسری عورتوں میں دلچسپی لینے لگے گا۔ نکاح آسان ہو گا تو طلاق بھی نہایت آسان ہے۔ اس صورت میں ملک میں فحاشی اور زنا میں اضافہ ہو گا یا کمی ہو گی؟

یہ بھی یاد رہے کہ شریعت میں شادی شدہ لوگوں کے لئے زنا کی جو سزا موجود ہے وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ شادی کرنے کے باوجود جنسی جرائم کا وجود رہے گا۔ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو شادی کریں یا نہ کریں وہ زنا یا ریپ کی طرف مائل رہیں گے۔ اس لئے جنسی جرائم یا فحاشی کا یہ حل پیش کرنا کہ کم عمری میں بچوں کی شادی کر دی جائے، مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید بگاڑ دے گا۔

ایک چیز مزید نوٹ کریں۔ جو افراد یہ حل پیش کرتے ہیں، کیا وہ خود اپنے گھر کی بچیوں کی شادی نو برس اور بچوں کی شادی بارہ برس کی عمر میں کرتے ہیں؟ یا پھر ان کو پہلے تعلیم اور روزگار دلوانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ شادی سے پہلے وہ مستحکم ہو جائیں؟ ان کی اپنی شادی کس عمر میں ہوئی تھی؟ گمان غالب ہے کہ دیر سے ہی ہوئی ہو گی۔ کیا اس دیر کی وجہ سے وہ جنسی جرائم کی طرف مائل ہوئے تھے یا صراط مستقیم پر چلتے رہے تھے؟

ان سوالات کے جواب سوچیں اور کوئی بہتر حل تجویز کریں۔ کم عمری کی شادی اور نکاح آسان بنانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ مسئلے کو بڑھانے کا سبب بنیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar