ہم سب کے دوہرے معیار



ابھی حال ہی میں بیٹی کو موسمی وائرل ہوگیا تو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہوا۔ اور بھی رنگ برنگے والدین ڈاکٹر کی دکان میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دکھانے لائے تھے۔ اس کالم کو اسی وقت بیٹھ کر لکھنا شروع کیا تھا۔ جو بیٹی کی طبیعت الحمد للہ ٹھیک ہونے کے بعد مکمل ہوا۔ تو خیال یوں آیا کہ جب سامنے کھیلتے بچے پر نظر پڑی۔ کونے میں بیٹھے اس کے ابا جان منہ سے ملٹی ٹاسکنگ کرتے ہوئے بیگم سے مسلسل باتیں بھی کر رہے تھے۔ اور گٹکے سے بھی انصاف ہورہا تھا۔ بچے نے اسٹیکر منہ میں لے لیا تو جھٹ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے گویا ہوئے؛ نہیں بیٹا منہ میں نہیں لیتے کاغذ۔
اب بتاؤ بھلا! خود گڑ کھا رہے ہیں اور بچے کو گلگلے کھانے سے پرہیز کروا رہے ہیں۔

ابھی اس سوچ نے انگڑائی لی اور ہمارا بلاوا آگیا اندر سے جو بمشکل پانچ سات منٹ پر محیط تھا۔
ایک تو ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ ہم کبھی اپنی ناساز طبیعت کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد ایک مریض کو فارغ کر کے باہر بھیجتے ہیں ڈاکٹر صاحب، جیسے وہ مریض کی طبیعت کی ناسازی کو دیکھ کر اس (انسان) کی پیدائش کی وجوہات معلوم کرنا چاہ رہے ہوں اور جب ہم اندر جاتے ہیں تو پانچ منٹ میں ہی ٹھونک بجا کر دیکھنے کے بعد ہمیں بے آبرو کر کے اپنے کوچے سے نکال دیتے ہیں۔ ہم باہر آکر ریسیپشنسٹ سے کہتے ہیں ہمیں اتنی جلدی ”کیوں نکالا؟ “

خیر ہم دوہرے معیار پر روشنی ڈال رہے تھے غالباً جو اس وقت ہمیں گٹکا نوش باپ کو دیکھ کر آیا۔ اور واپسی پر ہمیں اپنی ایک دور پرے کی شناسا خاتون یاد آگئیں جو خیر سے رشتے کرواتی ہیں۔ لوکل رشتے کے چارجز 25 ہزار سے شروع ہوتے ہیں۔ لوکل میں بھی دو کیٹگریز ہیں۔ ایک نارمل والے اور دوسرے ڈاکٹر انجینئیر۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل رشتے جن میں گرین کارڈ ہولڈرز قابل ذکر ہیں کے رشتے 50 ہزار سے 1 لاکھ تک میں کروائے جاتے ہیں۔ خیر ان کا بایو ڈیٹا فراہم کر کے بتانا یہ مقصود ہے کہ ان کی اپنی کنواری بیٹی کی عمر نکل رہی ہے اور اس کے پاس ”سونے“ کے نام پر رات کی نیند اور چاندی کے نام پر سر کے بالوں کی سفیدی ہے۔ اور ہاں یاد رہے ان خاتون کا تکیہ کلام ہے ”چراغ تلے اندھیرا“

کل ہی ایک خاتون کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا ”شوہر کا دل کیسے جیتیں“۔
مردوں کے حقوق سے بھرپور کالم کے چولہے پر عورتوں کے فرائض ابل ابل رہے تھے۔ پڑھ کے تھوڑا سا شک بھی ہوا کہ یہ ہرگز کسی عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا نہیں ہے، یقیناً کسی مرد نے عورت کے نام کا سہارا لے کر یہ مصالحہ دار ہنڈیا چڑھائی ہے۔ پھر اپنے وقت کی مزید ایسی تیسی کرتے ہوئے خاتون کی پروفائل کھول کر دیکھنے کی جراءت کی تو عقدہ کھلا کہ محترمہ بذات خود طلاق یافتہ میرج کاؤنسلر ہیں۔ یہ دیکھ کر تو بلکل وہی جذبات ہو گئے جو وینا ملک کو رمضان ٹرانسمیشن میں واٹر پروف میک اپ میں روتے ہوئے دیکھ کر ہوتے ہیں۔

کچھ دن پہلے سبز ستارہ کی خاتون نمائندہ ایک سپر اسٹور میں کچھ مواد لئے ٹکرا گئیں۔ میں نے ان کے کاؤنٹر پر جا کر معلومات جاننا چاہیں تو معذرت کے ساتھ جواب ملا کہ ٹائم اوور ہو چکا ہے۔ میں نے ازراہ مذاق کہہ دیا رک جائیں آپ کے کون سے بچے رو رہے گھر پر۔ تو جواب ملا ”کیوں بہن ہم کیا انسان نہیں ہیں؟ سب سے چھوٹا تو ابھی ڈیڑھ سال کا ہے۔ بڑے والے تینوں مل کر بھی اس ایک کو نہیں سنبھال پاتے۔ “
اب اس پر تو کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا! (ایسی تیسی سبز ستارے کی تو ان کے اپنے لوگوں نے ہی کر رکھی ہے۔ )

اور کتنے ہی واقعات ہیں جو صبح شام دندناتے پھرتے ہیں ہمارے آس پاس۔ جیسے ہماری اکثر خواتین خاص کر بیٹوں کی مائیں اپنے کماؤ پوت سپوت کے لئے کتریناکیف یا کم از کم ماہرہ خان جیسی دلہن کی بے تکلف ڈیمانڈ کیے بیٹھی ہوتی ہیں اور کمال یہ ہے کہ اپنا لڑکا چاہے شکتی کپور ہی کیوں نہ ہو لیکن اسے کسی نہ کسی زاویے سے رنبیر کپور یا کم از کم فواد خان سے ملا دیتی ہیں۔
آپ ہی بتائیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

سب جانتے ہیں ہمارے ملک میں کتنے ہی قبائل ایسے ہیں جو بیٹیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں کجا ان لڑکیوں کو ڈاکٹری یا انجینئیرنگ پڑھوائیں۔ لیکن اپنے گھر کی خواتین کے معمولی بخار کے علاج سے لے کر بچہ پیدا کروانے تک کے ہر مسئلے کے لئے صرف لیڈی ڈاکٹر ہی کی ڈیمانڈ کرتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے سب سے زیادہ مستفید بھی لیڈی ڈاکٹرز سے یہ غیرت مند لوگ ہی ہوتے ہیں۔

اگر ہم اپنے معاشرے کے دوہرے معیار پر لکھنے بیٹھیں تو طوالت کے اعتبار سے الف لیلوی داستانیں بھی شرما جائیں گی مگر ہمارے ڈبل اور ٹرپل اسٹینڈرڈ کے مارے لوگوں کی اقسام تفصیل سے نہیں لکھی جا سکتیں۔ حل تو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے سچ بولنا شروع کریں۔ انفرادی ابتداء ہمیں انشاء اللہ اجتمائی تبدیلی تک لے جائے۔

ماہ وش عدیل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).