کراچی میں سردی راؤ انوار سے ڈر گئی ہے


ایک ہو تو بتا بھی دوں ، دو یا تین ہو تو نام بھی یاد رکھ سکوں ، لیکن جب گنتی ہر روز بڑھتی جائے تو پھر درد رکھنے والے کی بجائے حساب کتاب کے ماہر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں روز اُٹھا کر غائب کر دیا جاتا ہو۔ حلف، وفا کی تبدیلی کا لیا جاتا ہو یا پھر ’راؤ‘ کو ’را ‘ کی تعداد بڑھانے کی بندوق دی جاتی ہو۔ ٹی وی کی جگمگاتی اسکرین پر بتایا جاتا ہو کہ ہر طرف امن کی بانسری بج رہی ہے اور ہم سب سر ڈالے اس دھن کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہو کہ ہر شخص اس خوف میں مرا جا رہا ہے کہ کسی بھی وقت، کوئی گلی سے نکل کر اُن کا موبائل چھین سکتا ہے۔ کوئی سرِ راہ عورت کو چھریاں مار کر جا سکتا ہے۔ کسی کار کو روک کر اندھا دھند فائرنگ کی جا سکتی ہے۔ اور اُس کا باپ التجا کرتا رہے گا کہ میرے بیٹے کو انصاف دو۔ ٹی وی چینل ریٹنگ کے لیے کبھی اُس کے باپ اور کبھی اُس کی دوست کو ایک ساتھ بیٹھا کر مزے لیتے رہیں گے۔

آپ نے اگر سچ بول دیا تو آپ کو حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ لینا پڑ جائے گا۔ اگر’لالو کھیت‘ میں رہتے ہیں تو کسی روز آپ 20 کلومیٹر دور گاڑی میں مردہ حالت میں مل سکتے ہیں میرا خیال یہ ہے آسان موت کے لیے اپنی بیماریوں کا سرٹیفیکٹ بھی ساتھ رکھیں تاکہ پوسٹ مارٹم کرنے والوں کو پریشانی نہ رہے۔ موبائل مانگنے والوں کو آنکھیں دکھائیں تو نامعلوم گولی ساتھ دے کر جائیں  گے۔ اس لیے لوہے کے ریٹ بھی معلوم کر کے رکھیں۔ آپ نے اگر بندوق راج کی بات کی تو توہین کے زمرے میں آ جائیں گے۔ کراچی کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر آپ کو کہیں انجئینئر نظر نہیں آئیں گے لیکن یہاں کی سیاست کے بارے میں بچہ بچہ جانتا ہے کہ کتنی محنت سے اس کا اسٹرکچر کھڑا کیا جا رہا ہے۔

ٹوٹی ہوئی سڑک پر رات کے 12 بج رہے تھے۔ عتیق بھائی کی دکان پر سگریٹ لینے رکا۔ تو حیرت سے پوچھا کہ کیا بات ہے آج بلکل بھی رش نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ ایک ہفتے میں گلی میں پانچ بار لوٹ مار ہوئی ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ کل دیکھو نہ کیا ہوا، پھر بولٹن مارکیٹ میں بم پھینک کر گئے ہیں۔ برابر گلی میں رہتا تھا بیچارا۔ میں سگریٹ لے چکا تھا۔ عتیق بھائی کا پرانا ’نوکیا ‘ کا موبائل بجا۔ دوسری طرف بیگم تھی۔ عتیق بھائی نے کہا بس بند کر رہا ہوں دوکان۔ انھوں نے جلدی سے فون بند کیا اور دوکان سمیٹنے لگے۔ میں نے پوچھا آپ کا ڈیجیٹل موبائل کہاں گیا ؟۔ کہنے لگے۔ ایک ہفتے میں دو بار لوٹ لیا۔ اب یہ ہی ٹھیک ہے۔ رات میں پھر وہ لوٹ کر آگئے تو کیا کروں گا۔ میں نے اپنے موبائل کو جیب کے اندر اور گھُسا کر خود کو تسلی دی کہ اب میں بچ گیا۔

شش۔ ۔ خاموش رہے۔ پہلے بھی یہاں لوٹ کی خبر دینے کی ہمت کسی میں نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے۔ پہلے یہ ڈر لگتا تھا کہ کہی پولیس یا میڈیا کو خبر دی تو کیا ہو گا۔ آج بھی ایسا ہی ڈر ہے۔ پہلے لوٹ مار کرنے والوں کا ہی ڈر لگتا تھا۔ اور آج کل لوٹ مار صاف کرنے والوں سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کسی بھی طرح کراچی سے یہ خبر نہیں جانی چاہیے کہ یہاں امن نہیں ہے۔ یہاں لوٹ مار نہیں ہوتی۔ یہاں تاجروں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں۔ یہاں بات کرنے کی اجازت نہیں۔ پہلے بھی بندوق کا راج تھا آج بھی بندوق کی زبان ہے۔

سوچ رہا ہوں کس کس عتیق کا ذکر کرو ں؟ جس شہر کی آبادی کا آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا۔ اُس شہر میں کسے اتنی فرصت ہے کہ یہ بھی تلاش کرے کہ کتنے عتیق اپنی دوکان میں بھی ڈرتے ہیں۔ کتنے تاجر شر پسندوں کی نگاہ میں ہیں۔ لیکن ہمیں جو معلوم ہے وہ یہ کہ بڑی محنت سے ، بڑے ہی انجئینر طریقے سے اور بڑے ہی حساب کتاب سے یہاں سیاست ہو رہی ہے۔ پہلے بھی کوئی بندوق کے ڈر سے اپنا پروگرام نہیں کر سکتا تھا۔ اور اب ایک کارنر میٹنگ کے لیے بھی بندوق سے اجازت لینی ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ لوگ بدلتے ہیں، نظام نہیں۔ کراچی کے لیے بس اتنی تبدیلی کر دیجیئے کہ بندوق بدلتی ہے، نظام نہیں۔ چلتے چلتے میں نے عتیق سے پوچھا۔ یار اس بار سردیاں نہیں آئی۔ کہنے لگے کہ رات کو نکلتے ہوئے ڈر رہی ہو گئی۔ کوئی لوٹ نہ لے۔ یا پولیس مقابلے میں ماری نہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).