چیف جسٹس کا بھلا سکرٹ سے کیا لینا دینا


چیف جسٹس آف پاکستان محترم جسٹس ثاقب نثار نے ہفتہ کے روز ایک تقریر کے دوران یہ کہہ دیا تھا کہ تقریر کی طوالت عورت کی سکرٹ کی طرح ہونی چاہیے جونہ تو اتنی لمبی ہو کہ لوگ اس میں دلچسپی کھو دیں اور نہ ہی اتنی مختصر ہو کہ موضوع کا احاطہ نہ کر سکے۔ خدا معلوم چیف جسٹس آف پاکستان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر شور شرابہ کیوں ہو گیا اور انہیں تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔

ان کے بارے میں بہت سے لوگوں نے عجیب وغریب کلمات کہے ہیں اورصنفی حوالے سے ان کے بیان کو متعصب قرار دیا جا رہا ہے۔ بلکہ سوشل میڈیاپر”چیف جسٹس معذرت کریں“ کےعنوان سے ایک مہم بھی شروع ہوگئی ہے جس میں یہ بحث جاری ہے کہ آخر پاکستان کے چیف جسٹس کو ایسی بات کرنا چاہیے تھی یا نہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ جس چیف جسٹس سے لوگ غیرمشروط معافی کے خواستگار ہوتے ہیں، فیس بک کی مخلوق انہی سے معافی کی طلبگار ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ عورت کی سکرٹ کی لمبائی سے چیف جسٹس کا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔

لوگ بھی توعجیب ہیں۔ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔ اب اگر ہم جان کی امان پاتے ہوئے چیف جسٹس کے اس جملے کی حمایت کریں گے تو ہمارا شمار بھی اسی صف میں ہونے لگے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جان کی امان چیف جسٹس صاحب سے مانگ رہے ہیں اور ہمیں ان کے خلاف یہ مہم ویسے بھی اچھی نہیں لگی۔ خدا معلوم منصف اعلیٰ کے اس بیان کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیا جا رہا ہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں تو انصاف کے نظام کو بھی کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اور نہ ہی کبھی عدالتی فیصلوں کو سنجیدہ سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر بھلا اس بیان پراتنے واویلے کی کیا ضرورت ہے اور بیان بھی وہ جو چیف جسٹس کا ہے ہی نہیں۔

چیف جسٹس چونکہ پڑھے لکھے ہیں اس لئے انہوں نے اپنی تقریر میں برطانوی وزیراعظم چرچل کا قول دہرایا تھا۔ ہاں اگر وہ چرچل کے قول کو اسلامی جمہوری معاشرے کے مطابق تبدیل کر دیتے ت وشاید اتنا شورشرابہ نہ ہوتا ۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ تقریر عورت کے سکارف کی طرح ہونی چاہیے جو پورے موضوع کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھے اور لوگوں کو اس میں سے کوئی اور معنی تلاش نہ کرنا پڑیں۔

اب آپ یہ کہیں گے کہ یہ توبے معنی بات ہوجاتی تو حضور چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلوں کی طرح ان کی تقریر میں سے بھی معنی تلاش کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ سو ہم اس تحریر کو یہیں ختم کرتے ہیں کہ اس سے آگے لکھنے کی ہم میں تو تاب ہی نہیں۔

(بشکریہ: گرد و پیش)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).