اسکرٹ کا تہذیب کی چولی کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟


 گئے وقتوں کی بات ہے لوگ صرف بدتمیزی پر ہی دست و گریباں ہو جایا کرتے تھے اور بڑے بوڑھے سکھایا کرتے تھے بیٹا صبر سے کام لیا کرو اور ایک دوسرے کو معاف کر دینےمیں بڑا اجر ہے ۔۔ ماسٹر صاحب بھی سکھاتے تھے کہ معاف کرنے  والا بڑا ہوتا ہے اور معافی مانگنے والا بھی معافی مانگنےسے چھوٹا نہیں رہتا۔ وقت بھلا کہاں ٹھہرتا ہے۔ گیا وقت چلا گیا۔ نیا وقت آیا جو ذرا جدید اور تیز ہے۔ بات بدتمیزی سے آگےبڑھی اور گالم گلوچ تک آپہنچی دیس پردیس میں تو لوگ بات بعد میں شروع کرتےہیں اور گالی پہلے نکالتےہ یں ۔ ایک گالی نکالنے کے بعد دو گالیاں سننے کا حوصلہ اور صبر اتنا بڑھ چکا ہے کہ میڈیا بھی “بےغیرت” “لعنت” جیسےالفاظ کو بار بار دہرانا اورایڈیٹنگ سے ان گالیوں کو سجا کر پیش کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔۔

سیاست میں گالی کا چلن عام کرنےکا سہرا جس بھی پارٹی کو جائے لیکن عوام کے ووٹ سے منتخب نمائندے بھی پیچھے نہیں۔ ایوان میں ایک وزیر نے جو ریمارکس دئیے تھے اس کی گونج ابھی تک فضاوں میں موجود ہے “کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے” یہ ایک مثال ہے دوسری مثال بھی سنیں اورسر دھنیں ایک مہذب خاتون رکن کو “ٹریکٹر ٹرالی” کہا گیا اور ٹریکٹر ٹرالی کے جواب میں کہے جانے والے فقرے لکھنا میرے بس کی بات نہیں ۔ ان القابات کو سمو لینے کی طاقت صرف اور صرف سوشل میڈیا میں ہی ہے۔۔ ویسے یہ سوشل میڈیا بھی بڑے کام کی چیز ہے۔ ادھر کسی ایک سیاسی رہنما نے کوئی بیان دیا اورادھر اس کے پیروکار اس بیان کو اتنی تیزی سے پھیلا دیتےہیں جتنی تیزی سے برقی رو دوڑتی ہے۔۔ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک بیان کو اپنےالفاظ میں پیش کرنےکیلئے” تڑکا” ضرور لگایا جاتا ہے۔اور اس تڑکے کےبعد وہ بیان،بیان نہیں بلکہ مصالحہ فرائی بیان بن جاتا ہے اور اس مصالحہ فرائی بیان پر مخالفین جب جواب دیتےہیں تو وہ اگلی پچھلی کسر بھی نکال دیتےہیں یعنی مصالحہ فرائی بیان پھر مکھن مار کے پیش کیا جاتاہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتاہے۔

ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے دھرنے کے دوران ویسے تو بڑی بڑی گالیاں دیں اور القابات سے نوازا لیکن جو شہرت اور دوام “پین دی سری” کو ملا وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا۔ ادھر جناب کی زبان سے “پین دی سری” ادا ہوا ادھر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا۔ ابھی مجمع میں حاضرین اس جملے سےمحظوظ ہو ہی رہےتھے کہ سوشل میڈیا پر اسٹیٹس کی بھرمار ہو گئی ۔

یہ لفظ “اوئے” بھی بڑی کمال کی چیز ہے ویسے تو بدتمیزی اور بدزبانی کےزمرےمیں آتا ہے اگر بچہ اسکول یا گھر میں کسی کو اوئے پکارے تو ہر کوئی اسے ٹوکتا ہے کہ بیٹا اوئےنہیں کہتے لیکن اگر کسی بازار گلی محلے میں اوئے کی آواز آئے تو ہر کوئی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کہ کہیں اسے تو نہیں یاد کیا جا رہا؟

اس وقت ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کو سمجھا رہےہوتےہیں۔ ارے بھائی گالی بکنا بڑی بری بات ہے۔ اوئےتوئےکرنا تو پرلےدرجے کی بدتمیزی ہے لیکن وہی کام ہم دوست احباب میں بیٹھ کر ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی بڑا ہنر ہو۔ سوشل میڈیا پر گالیاں نہیں گالیوں کی گردانیں موجود ہوتی ہیں صبر اور تحمل صرف اتنا رہ گیا ہے کہ گالی سننے پر اب غصہ نہیں آتا بس جواب سوچنے کیلئے چند سیکنڈ کا وقفہ دینا پڑتا ہے۔ سیاسی مخالفت ہو،معاشرتی مسائل ہوں یا کسی مظلوم کو انصاف دلانا ہو،تو گالیوں یاتوڑ پھوڑ کےبجائے سیدھا اور درست راستہ اپنانے کیلئے ہمیں ضرور سوچنا ہوگا۔ ہمیں قانون کو ہاتھ میں لینے اور قانون پرانگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنےگریبان میں جھانکنا ہو گا۔ زبان کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے ایسا نہ ہو ہم اپنی آنےوالی نسل کوداغ دار اور گرد سے اٹا ایسا آئینہ دے جائیں جس میں وہ اپنی اوراپنی تہذیب تک کو نہ دیکھ سکے۔ میں اب اپنی تقریر کو یہیں ختم کرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ کوئی اس کی لمبائی کو خاتون کے اسکرٹ سےناپنا شروع کردے اور بعد میں کہے کہ یہ فقرہ چرچل نےکہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).