ایران میں عورت سے ہاتھ ملانے پر دس کوڑے


ایران میں فارسی بولی جاتی ہے۔ وہ پڑھتے بھی فارسی میں ہیں۔ پڑھو فارسی، بیچو تیل والا محاورہ بالکل صحیح ہے یعنی یہ لوگ فارسی پڑھتے ہیں اور تیل کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایران میں سب سوٹ بوٹ پہنتے ہیں اور انگریزوں کی طرح ہی لال گلابی دکھائی دیتے ہیں۔ پر یہاں انگریزی زبان ڈھونڈنے سے ہی ملتی ہے۔ بڑے شہروں میں بھی کہیں موت مار سائین بورڈ نہیں ہوتے اشتہار دیواروں پر فضیلت سے لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ ایران اور پاکستان کا صفائی ستھرائی نظم و ضبط اور اتحاد کا کوئی مقابلہ نہیں یعنی ہم ان سب چیزوں سے ماورا ہیں۔

پاک زیارتوں والی جگہ پر ہر عورت کو عبایہ پہننا پڑتا ہے بھلے اندر جینز ہی پہنی ہوئی ہو ۔ مانگنے والے اتنے صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں کہ خیرات دیتے ہوئے شرم آنے لگتی ہے۔ فارسی بولنے والی گائیڈ لڑکی نے ہمیں بتایا کہ جہاں جہاں ہمارا گروپ جا رہا ہے وہاں ڈرائیور بیرے (ہوٹل والے) دکانوں پہ بیٹھنے والے عام لڑکے پاکستانی لڑکیوں کے رشتے لگوانے کی بات کرتے ہیں بعض موبائل نمبر بھی لکھواتے ہیں کہ لڑکی ڈھونڈ کر اطلاع دی جائے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایرانی لڑکیوں نے کوئی آگ لگائی ہوئی ہے ان کے پیچھے جب ہی مجھے ایرانی تاریخی کردار رکسونا یاد آ گیا، اس مائی نے تو ارسطو جیسے بندے کو مذاق ہی مذاق میں گھوڑا بنا کے سواری کی تھی۔ پاکستانیوں کو برادر کہہ کے مخاطب کرتے ہیں۔ ہمارا گروپ کہیں سٹرک کے کنارے کھڑا ہوتا تو کئی گاڑیاں رکتی کہ آگے جانا ہو تو لیتے چلیں۔ یہ پاکستان سے محبت اور مہمان نوازی تھی۔

ایک مسجد پہ امام خمینی کا پوسٹر لگا دیکھ کر خواہش مچلی کہ کاش ہم بھی کسی مسجد پر مولانا فضل الرحمن کا پوسٹر لگا سکیں۔ بینک کو بانک کہتے ہیں اس طرح شہروں میں کافی بانکیں دیکھیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ اکثر فیملی میں ایک بچہ دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کسی فیملی میں دو بچے بھی ہوتے ہیں۔ گائیڈ لڑکی نے بتایا کہ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنا قانونی طور پر منع ہے۔

فارسی مجھے زیادہ مشکل زبان نہیں لگی۔ کافی الفاظ تو ہماری اماں ہی بولتی رہتی تھیں۔ ایک دفعہ جب گھر میں موجود سب ہی لڑکیاں زکام زدہ ہوکر پڑ گئیں تو اماں نے پریشان ہوکے کہا یہاں تو سارا گھر ہی بیمار ستان ہوگیا ہے۔ یہاں آکر پتہ لگا کہ بیمارستان کا مطلب ہے “ہسپتال “اکثر کہتیں تعلیم کامیابی کی کلید ہے وہ بھی یہاں پتہ لگا کہ کلید کا مطلب ہے چابی۔ ایرانی چائے میں دودھ اور چینی نہیں ڈالتے یہ بات تب پتہ لگی جب ٹیکسی ڈرائیور نے چائے کی دعوت دی۔ اس کی شکل شاہ ایران سے بہت مل رہی تھی اس لیئے میں نے فوراً یہ دعوت قبول کی تھی اس نے کڑواسا قہوہ اور ایک چھوٹی سی مصری کی ڈلی دی جو منہ میں رکھ کر چائے پینا تھی۔

اصفہان میں ایک جگہ تھک کر بیٹھ گئی تو ایک آدمی نے آکے پوچھا پاکستانی ہوں میں نے ہاں میں گردن ہلادی تو خوش ہوکے اس نے مصافعہ کیلئے ہاتھ بڑھایا اور میں نے بھی لاشعوری طور بنا سمجھے ہاتھ بڑھا دیا پھر جب سمجھی تو سامنے کھڑے شوہر صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا اب ذرا ان سے بھی ہاتھ ملا لیں یہ بھی پاکستانی ہیں۔ یہاں آکر ایک دن اخبار میں پڑھا کہ ایک ایرانی کو عورتوں سے ہاتھ ملانے پر دس کوڑے ماڑے گئے ہیں۔

کراچی کے ڈیفنس کے علاقے میں خیابان بہت ہیں جس کا مطلب ہے راستہ ۔ ایران کے بس اسٹینڈ بہت خوبصورت ہیں اور ایئرپورٹ بہادر شاہ ظفر کی شاعری کی طرح بیکسی کا مزار ہیں۔ امریکی پابندیوں نے معیشت کا برا حال کیا ہے۔ پاکستانی ایک ہزار روپے میں ان کی کرنسی میں لاکھوں روپے بن جاتے ہیں۔ جبھی تو آپ ایک جوس کا گلاس چھ ہزار میں پی رہے ہوتے ہیں۔ آئس کریم کو بستنی کہا جاتا ہے۔ یہاں کا فالودہ ہمارے گولے گنڈے جیسا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ہم نے فالودے کا بے مزہ سالن بھی کھایا ایران کی عورتوں کو گھر میں روٹی بنانی نہیں پڑتی وہ دکانوں پہ بک رہی ہوتی ہے ۔

ماشاءاللہ ۔ ڈیڑھ فٹ کی روٹی۔ کئی بار لذیز لسی پی۔ لسی کو دوغ کہا جاتا ہے اس میں پودینہ اور سفید زیرہ ڈالا جاتا ہے یہ پتا میں نے ذائقے سے لگایا۔

کوکا کولا یا پیپسی وغیرہ جیسی کافرانہ بوتلیں یہاں نہیں پی جاتیں اسی ذائقے کی اپنی سوڈا بوتلیں بنائی ہوئی ہیں جن کو نوشابہ کہتے ہیں۔

یہ سن کر تو میں بہت خوش تھی کہ ایران میں سونا بہت سستا ہے بعد میں یہ خوشی بھی کافور ہوئی کہ سونا صرف 18 قیراط کا ہوتا ہے۔ چلتے چلتے جہاں دارو خانے پہ نظر پڑتی تو میں سمجھ جاتی کہ یہ میڈیکل اسٹور ہے۔ پھر ان اصفہان کاشان مشہد اور قم جہاں سے امام خمینی کی تحریک اٹھی تھی گند کچرے کا نام نشان تک نہیں تھا یہ دیکھ کے تو ماروی کو اپنے وطن کی بہت یاد ستانے لگی تھی ۔ ایران کے بادشاہی سائیز کے میٹھے انگور تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔ مشہد کے پکنک پوائنٹ کوہ سنگی پہ شیخ سعدی کا گدھے پہ سوار کا مجسمہ لگا ہے۔

نادر شاہ کی مزار پر ہتھیاروں کی جیسے نمائش لگی ہوئی تھی۔ یہاں ہی پروفیشنل فوٹو شاپ سے ایرانی لباس میں فوٹو کھینچوائی جو ابھی تک میرے فیس بک والے پہ دھری ہے۔ فردوسی کا شاہنا مہ میں نے نہیں پڑھا پر مزار پر قل پڑھ کر آئی ہوں۔ ان لوگوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے گروپ کو دو ٹکٹ فری کردیئے تھے۔ اصفہان کے امام خمینی بازار میں داخل ہوئے تو لگا کسی محل میں آئے ہوں۔ سچ ان لوگوں میں تو حال ہی نہیں ہے حیدرآباد کی ریشم بازار ایسی پتلی گلیاں تو بنا نہیں سکے۔ واپسی ایران ایئر لائنس تابان میں ہوئی ۔ ڈگ مگ ڈول رہی تھی لگتا تھا اب گری کہ تب گری پر کہیں نہیں گری ہم گھر پہنچ گئے تھے۔ ایران میں ایک جگہ بورڈ لگا تھا جس پر لکھا تھا باغ وحش یعنی درندوں کا باغ یہ لوگ تو انسانوں کی طرح رہتے ہیں۔ درندے تو ہمارے ہاں پلتے پوستے ہیں جس کی شہادت حالیہ زینب کا واقعہ ہے یعنی باغ وحش واں نہیں، یاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).