کراچی میں پولیس گردی


ایک وقت تھا لوگ غنڈہ گردی سے ڈرتے تھے۔ محلے کا ایک غنڈہ ہوتا تھا جس کا راج پورے محلے میں ہوتا تھا لیکن اس کے محلے کی بہن بیٹیاں اس کی دست برد سے محفوظ رہتی تھیں اور کوئی ان پر بری نظر نہیں ڈال سکتا تھا اور محلے کے بزرگوں کے کام آنا اس کا شیوہ ہوتا تھا۔ وقت گذرا، چلن بدلا، اب گردی کا لفظ مختلف الفاظ کے ساتھ استعمال ہونے لگا مثلاً آوارہ گردی یہ ایک بے ضرر سا مشغلہ بے کار لوگوں کا، یونہی گھومنا پھرنا اور آوارہ گردی تقریباً ہر نوجوان نے کی ہوگی کیونکہ اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ وقت گذاری کا کام ہے آپ کو بہت سے آوارہ گرد گلی کے نکڑ پر، پان والے کی دکان پر، یا پارکوں میں نظر آجائیں گے ٹائم پاس کرتے ہوئے۔

ایک اور گردی ہے جس سے پورا ملک جوج رہا ہے دہشت گردی۔ یہ وہ عفریت ہے جو ہمارے ملک پر راج کر رہا ہے اورہم اس سے نجات پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، ہماری فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سر توڑ کوششيں کررہے ہیں کاش ہم دہشت گردوں سے اپنے ملک کو پاک اور دہشت گردی کا خاتمہ کر سکیں۔

آج کل ایک نئی گردی نے زور پکڑا ہوا ہے وہ ہے “پولیس گردی”۔ شہر قائد میں تسلسل سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہورہے ہیں جس میں پولیس گردی ہو رہی ہے۔ جی ہاں پولیس بے گناہوں کو سرعام دہشت گرد کا لیبل لگا کر جان سے مار رہی ہے۔ کراچی کے ایک مشہور زمانہ ایس ایس پی ماورائے عدالت قتل کے سلسلے میں مشہور ہیں۔ انھیں ان کاؤنٹر اسپیشلسٹ بھی کہا جاتا ہے ۔ انھوں نے بہت سے بے گناہوں کو پکڑ کر پولیس مقابلے میں اسی طرح جان لی ہے، کیا ٹھیک ہے کیا غلط یہ تو وہ خود ہی جانتے ہیں لیکن بہت سے بے گناہ ان کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ابھی حال ہی میں فیس بک سلیبرٹی نقیب اللہ کو دہشت گرد بنا کر ماردیا گیا، اس سے قبل بھی ایک پوش علاقے میں انتظار کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا، اور حال ہی میں درزی کا کام کرنے والے مقصود پولیس گردی کا شکار بنا۔ اس سب کی تحقیقات ہونی چاہئیے ہمیں اتنا تو پتہ چلے کہ آیا وہ واقعی مجرم تھے یا نہیں۔

نئے سال کا آغاز تو خیر جیسے ہوا، معصوم زینب کی وجہ سے فضا سوگوار تھی لیکن کراچی میں اس سے بھی سوا ظلم ہوا اس ایک ماہ میں جو ابھی ختم نہیں ہوا، تین پولیس گردی کے واقعات ہوئے اور تینوں میں بے گناہ نوجوانوں کو سرعام جان سے مار دیا گیا انتظار، نقیب اللہ اور مقصود۔ کیا کراچی میں پولیس کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ سڑکوں پر ہی فیصلہ کرلیں کہ مجرم کون ہے؟ اور ملزم کون؟ یہ سچ ہے انصاف ملنے میں تاخیر ہوتی ہے اور کبھی کبھی گناہ گار عدم ثبوت کی بنا پر چھوٹ جاتا ہے لیکن قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار کس نے دیا کہ پولیس یوں سرعام بے گناہوں کو گناہ گاروں کے دھوکے میں جان سے مار دے جبکہ گناہ گار کو بھی جان سے مارنے کی اجازت نہیں ۔ یہ ظالم یوں بے گناہوں کے خون سے زمین سیراب کریں، بقول شاعر

ہر اک شے اور مہنگی اور مہنگی ہوتی جائے گی

بس اک خون بشر ہے جس کی ارزانی نہیں جاتی

ظلم کی انتہا ہوتی جارہی ہے اور صرف زبانی کلامی اقدامات کیے جارہے ہیں خدا کے لیے ہوش میں آجاؤ ایسا نہ ہو کہ اللہ کی بے آواز لاٹھی اٹھ جائے اور تم سب کا یوم حشر ہو جائے۔ پولیس گردی کو نہ روکا گیا تو پھر شہری اس کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ پولیس گردی کا خاتمہ کیا جائے نہیں تو کراچی والے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ پولیس کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔

ایک وقت تھا کہ ایک ایک نغمہ گونجتا تھا کہ

پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی

کریں جان ودل سے مدد آپ کی

لگتا ہے پولیس اپنا فرض بھول چکی ہے اور ایسے کام کررہی ہے۔ بے گناہ شہریوں کا خون بہانے پر پولیس والوں کو سزا ضرور ملنی چاہیئے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).