سکرٹ کی لمبائی سے دھوتی کی حرمت تک


ہمارے قاضی القضاۃ نے دو دن ہوئے تقریر کو سکرٹ کی لمبائی اور گھٹائی سے تشبیہ دے کر اپنی طرف سے سامعین کی تفنن طبع کا انتظام کیا مگر کیا کیجئیے ہم لوگوں کی پھُس پھسی حس ظرافت کا، کہ مذاق میں بھی خواتین کی تمثیل نگاری کے دشمن ہوئے پھرتے ہیں۔ اقبال فرما گئے ہیں کہ ‘وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ’، تو اگر اسی وجود پر پہنے ہوئے سکرٹ کی تشبیہ تقریر میں رنگ بھرنے کے لئے دے دی گئی تو بھلا کون سی قیامت آ گئی، اب درزی بھی تو کپڑوں کی لمبائی گھٹائی کا خیال تو رکھتا ہی ہے، کیا ہوا جو کائنات کی تصویر میں رنگ بھرنے کی بجائے سلائی کر دیتا ہے۔

سکرٹ کی لمبائی سے یاد آیا کہ ہمارے گھر کے پاس اہل تشیع کا امام باڑہ ہے۔ عام رواج کے مطابق احباب شلوار قمیص یا پینٹ شرٹ پہنے ہوتے ہیں۔ اس سے تھوڑا دور دیوبند کا ایک مدرسہ ہے، وہاں پر شلواریں ذرا اوپر ہو جاتی ہیں اور ٹخنے دکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پینٹ والے حضرات اَسن کی تنگی کے پیش نظر صرف نماز کے دوران پینٹ نیچے سے تہہ کر لیتے ہیں۔ ایک طرف اہل حدیث کی مسجد ہے، یہاں ڈاڑھیاں سینوں کو اور شلواریں گھٹنوں کو چھو رہی ہوتیں ہیں۔ یعنی کہ خوب سے خوب تر کی امثال سے محلہ بھرا پڑا ہے۔ اب اگر تقریر کی تمثیل کے لئے ہم نے شلوار اور ٹخنے کی مثال دے دی تو شعائر اللہ کی گستاخی میں ہمیں ‘جہنم واصل’ بھی ہونا پڑ سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم کوئی ڈرتے ورتے ہیں، بالکل بھی نہیں، مگر ٹخنوں تک کی شلوار کے لئے اب قتل ہی ہو جانا کب مناسب ہے۔

ہمارے ایک بہت شریف اور نیک کولیگ تھے۔ ٹائی نہیں پہنتے تھے کہ صلیب سے تشبیہ ہے، اور پینٹ بھی ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ہماری کمپنی کے چیئرمین سے ملاقات تھی تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر نے ان کی طرف دیکھ کر بولا کہ یا آپ ٹائی لگا لیں یا نہ ملیں۔ وہ چلے گئے، ہم سمجھے کہ نہیں ملیں گے کہ ٹائی نہ لگانا ساری عمر کی ریاضت تھی، مگر دو منٹ بعد ٹائی لگا کر ہمارے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس شریف انسان نے شائد ٹائی کو سکرٹ ہی سمجھ لیا تھا، مگر یہ سکرٹ تھوڑی تھا کہ لمبی ہوتی یا چھوٹی، نہ دلچسپی کا رولا نہ ‘نفس مضمون’ چھپانے کا ڈر۔ ٹائی سے یاد آیا کہ سر ظفراللہ سے ایک دفعہ کسی نے ٹائی پہننے پر انقباض کا ذکر کیا کہ صلیب سے مشاہبت لگتی ہے، سر ظفراللہ نے کہا کہ اگر صلیب سے مشاہبت کا شائبہ بھی ہوتا تو یہود نہ پہنتے۔ مگر سکرٹ میں معلوم نہیں کس کی مشاہبت تھی کہ پاکستان کی خواتین کی اکثریت تو سکرٹ پہنتی ہی نہیں، تو لمبی چھوٹی کا تو سوال ہی نہیں۔

اب پاکستان میں تقریر کیسے ناپتے ہوں گے کہ ‘نفس مضمون’ (یہاں سکرٹ مراد ہے) ہی ہمارا لباس نہیں ہے۔ ویسے دھوتی سکرٹ کی بچھڑی ہوئی بہنا ہے، مگر استعمال مردوں کے ہاں ہوتی ہے، فیمینسٹ کو نظر کرنی ہوگی۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ دھوتی کی لمبائی گھٹائی پر اگر تقریر کا فیصلہ ہونے لگے تو کیسا لگے گا؟ چلیں کوشش کرتے ہیں۔ تقریر بھی دھوتی کی طرح ہے، لمبی ہوجائے تو سنبھالنی پڑتی ہے اور چھوٹی ہوجائے تو ‘نفس مضمون’ کے اظہار کا ڈر ہوتا ہے۔ ویسے، جس حساب سے ہمارے دیہات میں دھوتی سے ‘نفس مضمون’ چھپانے کی سعی ہوتی ہے، تقریر تو بھول ہی جاتی ہوگی۔ اگر ہمارے قاضی القضاۃ دھوتی کا لفظ استعمال کر لیتے تو شائد کوئی برا نہ مانتا، فیشن تو خواتین کی تجسیم کو برا ماننے کا ہے، مرد کا کیا ہے، دھوتی؟ سکرٹ پر تو اتنی دھماچوکڑی مچی، مگر دھوتی کے بارے میں، سٹیج ڈراموں کی لغو جگتوں کو تو چھوڑیں، بڑے بڑے نام ‘توہین’ کرتے پائے گئے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم احباب دھوتی و سکرٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ دھوتی کی عزت و ناموس کے لئے بھی رولا ڈالنے کی روش روا رکھی جائے، ورنہ اگر ٹخنوں سے اوپر شلوار والے آگئے تو پھر دھوتی سکرٹ کیا، جان کی حرمت بھی ہوا ہو جانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).