یہ بستی میری بستی ہے


جہاں میں ہوں

یہاں جب رات ہوتی ہے

تو اس ساحل پہ سورج نور برساتا ہے

جس کی ایک اک موجِ رواں کے ساتھ

میرا دل دھڑکتا تھا، دھڑکتا ہے

یہ میرا شہر،یہ میری گلی، میرا محلہ ہے

جو میرا بس چلے

 میں اس گلی کی دھول پلکوں سے اٹھا لوں

چوم لوں،اس میں نہا لوں

اوڑھ لوں اس کو بچھا لوں

اور اس میں دفن ہو جاو ¿ں

یہ اجلی دھول جس میں میری یادوں کے

 ہزاروں رنگ رقصاں ہیں

جہاں اب بھی مرا بچپن

سنہری تعزیوں کے پنیّوں سے

اور رواسن کے درختوں سے

مجھے آواز دیتا ہے

وہ کہتا ہے یہاں آو ¿ادھر دیکھو!

ابھی تک یہ محلہ پہلے جیسا ہے

یہاں رنگین تہواروں کے پیراہن میں

انسانی تعلق کے سبھی جذبے

 توازن سے ابھی تک ایک سے موسم میں ٹہرے ہیں

یہاں پر گیارھویں کے چاند کی اب بھی وہی رونق ہے

رنگیں شامیانوں اور ّچٹی چاندنی پر۔۔۔ دور تک

قوالیوں کی روح افزا لہر کی وہ عطر سامانی ابھی بھی ہے

وہی ڈھلتی ہوئی شب اور وہی بادِ صبا کے دوش پر

خواجہ کے دیوانوں کی آوازوں کی سرمستی۔۔۔

وہی “خواجہ مرے خواجہ معین الدین “کی گردان

اس گردان میں اللہ جانے کیسا جادو تھا

کہ اب تک حافظے سے اس کی شیرینی نہیں جاتی

یہاں ماہِ محرم کی نموداری پہ یکساں جوش سے

فاروق و حیدر،عائشہ و فاطمہ مل کر

سبیلیں اب بھی ننھے منے ہاتھوں سے لگاتے ہیں

وہ مٹی کے گھڑوں پر سرخ کابس مل کے

ان کو رہ گزر پر ایک سی ترتیب سے اب بھی سجاتے ہیں

سبیلیں سرخ کپڑوں سے مزین جگمگاتی ہیں

ہر اک پیاسے کو رستہ روک کر پانی پلاتی ہیں

یہاں عثمان بابا والا اونچا تعزیہ اب بھی کھڑا ہوتا ہے

جس کی جھلملاہٹ میرے اندر ایسے رقصاں ہے

کہ اس کی خیرگی سے روح تک میری منور ہے

مرے اندر جو ہے اک درد کی ننھی سی لو روشن

اسی آواز کی بالیدگی کا ایک پرتو ہے

مرے عثمان بابا کی وہ اشکوں سے دھلی آواز

نو کی رات کو جو وہ شہادت نامہ پڑھتا تھا

غمِ شبیر کا یہ سوز اس پر ختم تھا گویا

عجب کردار تھا عثمان بابا کا

ہر اک بچہ تھا اس کا سر چڑھا ،وہ چاہے جس کا ہو

سکینہ ماروی سے لے کے

وہ گلیوں میں جھاڑو دینے والے

اپنے جوزف داس کا لڑکا تلک اس کا چہیتا تھا

عجب فہرست تھی اس کی کہ اس فہرست میں کوئی

نہ گورا تھا نہ کالا تھانہ اونچا تھا نہ نیچا تھا

ہمارے اس محلے میں

خدا کے فضل سے ہر سمت ڈھیروں ڈھیر بچے تھے

کبھی ایسا بھی ہوتا تھا،کہ سب عثمان بابا پر

اچانک ساتھ ہی یلغار کرتے تھے

مگر پھر بھی برابر سے

نہ جانے کس طرح ہم سب میں وہ جنگل جلیبی بانٹ دیتا تھا

ہمارے اس محلے میں کئی کردار تھے جن میں

وہ گہری گہری کالی آنکھوں اور شیشے کی جھلمل اوڑھنی والی

سکینہ ماروی میری سہیلی تھی

وہ ماں کے ساتھ پٹری پار سے پینے کا پانی لینے آتی تھی

ہمارے گھر کے اور مالیر کے اس کھیت کے مابین

یہ اک ریل کی پٹری خطِ تنسیخ تھی گویا۔۔۔

سکینہ ماروی بھی کیا عجب لڑکی تھی

جو میری زباں سے اور میں جس کی زباں سے نابلند تھی

پھر بھی جانے کس طرح شیر و شکر تھے ہم

ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہر طور ہم آہنگ تھیں اتنی

بظاہر تو ہمارے درمیاں

ماحول نے اک بے ضرورت حدِ فاصل کھینچ رکھی تھی

مگر پھر بھی نہ جانے کیا کشش تھی

کھڑکیوں کے اس طرف سے جھلملاتی

ماروی کی کالی آنکھوں میں

نہ جانے کون سا جادو تھا ان ظالم دوپہروں میں

جو کچی نیند سوتا چھوڑ کر ماں کو دبے قدموں

میں آ چھپتی تھی پیڑوں میں

عجب بے خوف موسم تھے

ہم اکثر باغ سے اک ساتھ ہی

امرود کی چوری میںپکڑے جا چکے تھے پر

سمجھ میں یہ نہیں آتا

کہ مالی کی ہر اک گالی، ہر اک پتھر

اکیلی ماروی ہی کے لیے مخصوص تھا کیوں کر

ہمارے اس محلے کے سرے پر آخری گھر مائے کا تھا

یوں تو کہلاتی تھی مائے بوہڑ والی

لیکن اس کے گھر کے آنگن میںفقط اک نیم ہوتا تھا

کوئی جب پوچھتا مائے سے وجہ تسمیہ اس نام کی

تو وہ بہت دھیرے سے ہنستی۔۔۔ اور کہتی تھی

اجی وہ بڑ کا اُنچّا پیڑ تو میں ہوں

کبھی ہنستی ہوئی آنکھوں میں اس کی جھانک کر دیکھو

تو لگتا تھا چھلک اٹھیں گی۔۔۔پر اتنا ہی کہتی تھی

کبھی لاہور دیکھا ہے؟

میاں والی سے گزرے ہو؟

نہیں دیکھے اگر یہ شہر تو کیا خاک دیکھا تم نے دنیا میں!

کبھی لاہور سے گزرو تو تھوڑی دیر کو رک کر

محلہ بوہڑ والا چوک میں میرا کسی سے نام لے دینا

میاں والی کو جانا ہو

تو واں دیوار پر بیٹھے ہوئے کاگا سے

میرے ماں کا اور پیؤ کا ذرا احوال لے لینا

وہ پھر سے ہنسنے لگتی تھی

جگت ماں تھی وہ

سو چھوٹا بڑا ہر کوئی اس کو مائے ہی کہہ کر بلاتا تھا

سویرے ہی سویرے مائے کے ہاتھوں کے

 ان مولی بھرے خستہ پراٹھوں کے بنا

کب سردیوں کا لطف آتا تھا

گلابی جاڑے آتے ہی

چھتوں پر مختلف دالوں کی بڑیاں سوکھنے لگتیں

ذرا خنکی بڑھی اور تل کے لڈو لے کے مائے آ پہنچتی تھی

حقیقت میں وہ بڑ کا پیڑ تھی جس کی گھنی چھایا

تھی سب کے واسطے یکساں

مرا بچپن بلاتا ہے تو مجھ کو یاد آتا ہے

اس آبادی میںاور اس ریل کی پٹری میں جو بھی فاصلہ تھا

اس کو خود رو جھاڑیوں نے ڈھانپ رکھا تھا

مگر اکثر یہاں پر سال پیچھے ایسا ہوتا تھا

کہ ہم اسکول جانے کو سویرے گھر سے نکلے تو

ٹھٹک جاتے تھے پل بھر کو

ہم آنکھیں مل کے پھر سے دیکھتے جنگل میں منگل ہے

وہ خود رو جھاڑیاں ہم جن میں تتلی بھی پکڑنے کو اگر جاتے

تو زخمی ہو کے آتے تھے

وہ راتوں رات چھت کے طور اور دیوار کی صورت

 کھڑی دکھلائی دیتی تھیں

یہ سب بنجاروں کے کھردرے ہاتھوں کی برکت تھی

کہ خار و خس کو بھی چھو لیں تو وہ اس کو چمن کر دیں

(جہاں گردوں کے چھوٹے چھوٹے یہ ٹولے

ہزاروں سال سے گردش میں ہیں

اور کتنی تہذیبوں کے جنگل سے یہ گزرے ہیں

مگر اپنی الگ تاریخ اور تہذیب رکھتے ہیں

یہ اپنے نین، اپنے نقش اور آواز کا جادو

نہ جانے کونسا قانون ہے جس کے تحت

نسلوں کی اور تہذیب کی یلغار سے یکسر بچائے ہیں)

جو ِان میں جھانک کر دیکھو تو تہہ در تہہ

ہزاروں رنگ تھے چھوٹی سی دنیا میں

مرا معمول تھااسکول سے آتے ہوئے اکثر

ٹہر کر دیکھتی تھی اس نئی دنیا کے ہنگامے

سنہری جھاڑیوں کے بیچ پیلے پھول ہنستے تھے

وہ چھوٹے چھوٹے سے

 بکری کے بچوں کے گلے میںگھنٹیوں کا شور

اور وہ مرغیوں کااور بطوں کا

پروں کو پھڑپھڑانا ایسا لگتا تھا

فرشتے بات کرتے ہیں

حسیں آنکھوں، سنہری چوٹیوں والی

یہاں چھوٹی سی جگنی کھیلنے کی عمر میں

مٹی کے ہاتھی اور گھوڑے میں

جو محنت کے انوکھے رنگ بھرتی تھی

مری آنکھوں نے پھر ویسے کھلونے ہی نہیں دیکھے

وہ گاتی تھی تو لگتا تھا کوئی دل کھینچے لیتا ہے

وہ ماں کے ساتھ ہم آواز ہوتی تھی

“بلا لو یا رسول اللہ

ہمیں بھی اپنے روزے پر بلا لو یا رسول اللہ”

وہ سر تا پا فقط آواز تھی یا بانسری کوئی

یہ چھوٹا سا محلہ کیا تھا اک رنگین دنیا تھی

جہاں پر موسموں کی سختیوں میں بھی انوکھا حسن ہوتا تھا

ہمیشہ سردیوں کی رات میں

سوندھی سنہری مونگ پھلیوں اور چلغوزوں کے ٹھیلے تک

خرد گل خیر کی آوازہم کو بستروں سے کھینچ لاتی تھی

گلابوں میں بسی وہ ریوڑیاں

اور بھوبھل میں دبی میٹھی شکرقندی

شکر قندی تو از خود ہے شکر قندی

مگر وہ شے کہ جس کو ذائقہ کہتے ہیں

وہ دراصل تھی تاثیر مٹی کی

وہ سائیں اللہ دینو کے ہرے امرود

لالہ شیام کی قلفی ملائی

اور ڈیرے والیوں کے مٹیوں کے ہاتھی گھوڑے

ڈگڈی، پنکھے، کھلونے اور غبارے

سبھی میں رنگ تھے کتنے

یہاں مٹی کے چھوٹے سے کھلونے میں بھی

ننھا سا ہمکتا دل دھڑکتا تھا

یہاں کاٹھی کے گھوڑے کی اڑانیں آسماں تک تھیں

مجھے جب یاد آتی ہے

تو دیوانہ سا کر دیتی ہے وہ خوشبو رواسن کی

وہی مالیر کے کھیتوں کی البیلی ہوا

امرود اور شہتوت کے پیڑوں کی وہ شاخیں

کہ جن پر میرے بچپن کا بسیرا تھا

وہ کانٹوں کی سنہری جھاڑیاں

میں جن میں اکثر اپنی آنکھیں بھول آتی تھی

وہ مسجدجس کی چھوٹی چھوٹی دیواروں پہ

بچے دوڑے پھرتے تھے

جس کے فرش پر تڑکے کے جیسا نور تھا

ٹھنڈک تھی اور آسودگی ہر سو

جہاںد ر پر کھڑے چھتنار گولر پر

روپہلی، چمپئی اور کاسنی پریاں اترتی تھیں

کبھی قرآن پڑھتے پڑھتے ہم گولر کی پریوں کے تصور میں

ذرا سا رحل پر بس ایک جھپکی لے کے

پریوں سے گلے مل کے

پلٹ آتے تھے واپس مولوی صاحب کی قمچی سے

مسلسل تعزیوں کی پنیوں سے اور مسجد کی منڈیروں سے

مسلسل حیدر و فاروق کی رنگیں سبیلوں سے

سکینہ ماروی کی اوڑھنی میں جھلملاتے ننھے شیشوں سے

وہ جگنی والے چھوٹے لال مٹی کے کھلونوں سے

رواسن کے درختوں سے

مرا بچپن مجھے آواز دیتا ہے

وہ کہتا ہے ابھی تک یہ محلہ پہلے جیسا ہے

یہ ممکن ہے میں اس کی مان بھی لیتی

مگر میں نے ابھی جو ہوش کی آنکھوں سے دیکھا ہے

وہ منظر اور ہی کچھ کہہ رہا ہے ماجرا کیا ہے

وہی کردار ہیں سارے ،وہی میرا محلہ ہے

وہی ہیں میرے ہم جولی،ہر اک مانوس چہرہ ہے

مگر جو ہے وہ سہما ہے!

یہ پیڑوں کے بجائے خوف کے سائے میں بیٹھے ہیں

یہ بچے کیسے بچے ہیں

مسلسل گفتگو کا ان کے محور صرف گولی ہے

مگر گولی کے پیچھے اختر و انور بھی لڑتے تھے

مجھے بھی اچھے لگتے تھے بہت یہ خوشنما کنچے

کہ جب رکھ کر ہتھیلی پر اسے اک آنکھ سے دیکھو

تو کھنچ آتے تھے کتنے رنگ اس ننھے سے کنچے میں

کبھی محسوس ہوتا تھا

کہ ہم نے اک ہتھیلی پر اٹھا رکھی ہے یہ دنیا

یہ سارے براعظم، بحراعظم اب ہماری دسترس میں ہیں

عجب قدرت عجب تسکین کا احساس ہوتا تھا

مگر یہ میرے ہم جولی!

یہ جس گولی کی باتیں کر رہے ہیں

اس میں چنگاری ہے اور بارود کی بو ہے

ابھی بالکل ابھی میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے

کہ منظر کیسے بدلا ہے

وہی مسجد کا دروازہ،وہی ہے پیڑ گولر کا

اور اس گولر کے نیچے

اک حسیں آنکھوں، سنہری چوٹیوں والی

وہ لڑکی میری جگنی تھی

ابھی بالکل ابھی میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے

کہ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر کیسے بکھرا ہے

مگر پھیلے ہوئے ہاتھوں میں اک روٹی کا ٹکڑا ہے

وہ مسجد کا مقدس فرش اس کے خوں سے بھیگا ہے

وہ گولر جس پہ میرے خواب کی پریوں کا ڈیرہ تھا

فقط آسیب لگتا ہے

دکھائی کچھ نہیں دیتا

لہو میں شور برپا ہے

سنائی کچھ نہیں دیتا

جو دل پر ہاتھ رکھو تو

فقط اتنا ہی کہتا ہے

وہ عیسیٰ چوک ہو یا داس منزل کا کوئی مندر

لوہاری گیٹ ہو یا گوٹھ قاسم کی کوئی بستی

وہ باب العلم ہو یا مسجدِ صدیق اکبر ہو

حسین آباد ہو یا وہ مری فاروق نگری ہو

جہاں بھی گولیاں چلتی ہیں میرے دل پہ لگتی ہیں

ہر اک وہ گھر جہاں ماتم بپا ہے میرااپنا ہے

یہ جتنا خون بھی اب تک بہا ہے میرا پنا ہے

مقدس خاک پر بکھرے ہوئے اُدھڑے ہوئے اعضا

جنوں کی آگ میں جھلسا ہواہر لاش کا چہرہ

اگر پہچان مشکل ہو تو میرا نام لکھ دینا

یہ اعضا میرے اعضا ءہیں

یہ چہرہ میرا چہرہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).