شہر ہاتھ مَلتے ہیں


اُجڑتی بستیاں، ہاتھوں کو مَلتے شہر دیکھے ہیں

مری آنکھوں نے انگاروں پہ چلَتے شہر دیکھے ہیں

٭٭٭

عجب تہذیب ہے جس نے کتابیں راکھ کر ڈالیں

اُٹھے شعلے تو مٹی میں بدلتے شہر دیکھے ہیں

٭٭٭

ابھی کَل تک یہیں پر ہنس رہی تھی زندگی ہر سُو

مگر پھر یک بیک پتھر میں ڈھلتے شہر دیکھے ہیں

٭٭٭

نہ کیوں تاریخ کے اوراق بھی نم ناک ہوجائیں

کہ ہم نے شعلہ ئ غم سے پگھلتے شہر دیکھے ہیں

٭٭٭

قیامت وہ اٹھی مٹی سے بھی آنسو نکل آئے

کہ ہم نے زخم کھاتے،خوں اُگلتے شہر دیکھے ہیں

٭٭٭

انھیں پامال کرڈالا فراعینِ زمانہ نے

خود اپنی ہی اُداسی سے بہلتے شہر دیکھے ہیں

٭٭٭

طلوعِ صبح جب ہوگی یقینا وقت بدلے گا

کہ ہم نے راکھ سے پھر سے نکلتے شہر دیکھے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).