ان خداؤں سے پیار کرنا ہے، بطور انسان آگے بڑھنا ہے


نکے تو مرے گا پکا۔ بتا مرنا کیسے چاہتا اپنی محبت کے ہاتھوں۔ کسی ملا کے ہاتھوں۔ کسی تازہ خان کے ہاتھ سے۔ یا اپنے سر میسی کے ہاتھوں۔ نکے نے کہا یار میں ویاہ کرا کے مرنا چاہتا ہوں۔ نکے تم نے تو ان سب کے ہاتھوں باجماعت مرنے کا ہی سوچ لیا ہے۔ نکا بولا اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں۔

نکا ہمارا سکول فیلو ہے۔ نکا اس کا  پیار سے رکھا ہوا وہ نام ہے جو بتایا جا سکتا ہے۔ ہمت دیکھیں جوان کی مسلمانوں کے اس ملک میں عیسائی پیدا ہو گیا۔ خیر سے ایک مسلمان لڑکی کو پسند کر بیٹھا۔ لڑکی بھی اصل اخروٹ تھی۔ اس نے کہا مسلمان ہو جا تو قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔ ہم دوست بیٹھے اسی مسلے پر غور کر رہے تھے۔ لڑکی سے بات کر کے حتمی رپورٹ لے چکے تھے۔ اسے جتنا ڈرا سکتے تھے ڈرا دیا تھا۔ اس سے یہ تک کہہ کر دیکھ لیا تھا کہ دیکھو کافر ہے۔ اگر شادی کے لیے جھوٹ موٹ مسلمان ہوا تو پھر۔ حسینہ بھی پوری بہادر خان تھی اس نے کہا مجھے بندوق پسٹل مشین گن وغیرہ چلانی آتی ہے۔

نکے یہ کڑی تو پاگل ہو چکی ہے۔ تم ہی کچھ عقل کر لو۔ نکا بولا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ مشر چپ بیٹھا تھا کہ مسئلہ اس کی عقل سے بھی بڑا تھا۔ اچانک بولا نکے دیکھ تیس روزے تو تمھیں پکا رکھنے پڑیں گے۔ پانچ نمازیں مسجد میں پڑھنی ہوں گی۔ ایک بھی مس ہوئی تو لوگ شک کریں گے کہ اس کی مسلمانی میں فرق ہے۔ نکا بولا اوئے لعنتیو تمھارے ساتھ کتنی بار جمعہ پڑھنے مسجد گیا ہوں۔ جب بھی تمھاری افطاریوں پر آیا ہوں روزہ رکھ کر ہی آیا ہوں۔

  مشر بولا تمھاری سنتیں بھی ہوں گی۔ بیٹا اس عمر میں تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔ نکا بولا جب میں پیدا ہوا تھا ناں تو سر میسی سفارش کرنے ہسپتال آئے تھے۔ ڈاکٹر نے اپنا کوئی بچہ ہمارے سکول میں داخل کرانا تھا۔ اس نے اپنی طرف سے سر میسی کو خوش کرنے کے لیے جوش میں خوشی خوشی میری سنتیں بھی ساتھ ہی کر دی تھیں۔ یہ سن کر اب ہم ہنستے نہ تو اور کیا کرتے۔ نکے نے اٹھ کر سب کو ایک ایک لات لگائی۔ مشر بولا ”دا سپیرا خو پورا مسلمان دے“، یعنی یہ شوہدا تو پورا مسلمان ہے۔

سمجھ تو آپ کو آ ہی گئی ہو گی۔ ہمارا دوست اپنے پیار کے لیے مسلمان ہونا چاہ رہا تھا۔ جتنے اور جیسے سے مسلمان ہم تھے۔ ویسا سا تو وہ شروع سے ہی تھا۔ سنتیں تک اس کی ڈاکٹر نے اپنی خوشی سے تب ہی کر دی تھیں جب یہ ابھی ہسپتال سے گھر تک نہیں پہنچا تھا۔ ہم سب بیٹھے دنیا داری کے سارے متوقع مسائل کو نظرانداز کر کے بس ایک بات سوچ رہے تھے۔ ہمارے سر میسی نکے کے مسلمان ہونے پر کیسا محسوس کریں گے۔

سر میسی ہمارے سکول پرنسپل تھے۔ ہم ان کے شاگرد ہندکو پشتو فارسی پنجابی چترالی کوہستانی بولنے والی رنگ برنگی مخلوق تھے۔ ہمارے ہم جماعت قبائلی بھی تھے افغانی بھی۔ ان میں بہت امیر بھی تھے اور بالکل غریب بھی۔ سپیشل بچے بھی ہمارے ہم جماعت ہوا کرتے تھے۔ یہ سکول بنایا ہی میڈم لودھی نے نارمل ابنارمل بچوں کو اکٹھا پڑھانے کے لیے تھا۔ میڈم لودھی سکول کی پہلی پرنسپل تھیں۔ سر میسی دوسرے پرنسپل بنے میڈم کی وفات کے بعد۔ میڈم سراپا پیار تھیں، سر میسی ہمیں ڈنڈے سے سیدھا رکھتے تھے۔

سر کہا کرتے کہ آسمان سے کتابیں سمجھدار لوگوں کے لیے اتری ہیں۔ تم لوگوں کے لیے ڈنڈا نازل کیا گیا ہے۔ اسلامیات کی کلاس ہماری سر کے سامنے ہوا کرتی تھی۔ سر نے ڈنڈے کے زور پر یقینی بنایا کہ ان کے تمام شاگرد بنیادی اسلامی معلومات رکھتے ہوں۔ انہیں سورتیں یاد ہو کلمے آتے ہوں۔ سکول میں ہم لوگ سر میسی کے فوت ہونے کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ اب سارے بیٹھے سوچ رہے تھے کہ نکا اگر مسلمان ہو گیا۔ یہ سن کر سر میسی کیسا محسوس کریں گے۔ انہیں کیسا لگے گا۔ جس سے مار کھائی تھی۔ جسے بچپن میں ہمیشہ دل سے برا کہا تھا۔ اس کے دل کا سوچ کر پریشان بیٹھے تھے۔ ہم انسانوں کے آپسی تعلق بھی نہ کتنے عجیب ہوتے۔

آپ کو اپنی ایک میڈم کی بات بتاؤں۔ میڈم نے پوچھا وسی یہ بتاؤ پندرہ صدیاں ہونے کو آئی ہیں۔ کیسے کیسے لوگ آئے انہوں نے اپنے خیالات سے اپنی دریافتوں سے اپنے علم سے دنیا کو بدل کر رکھ دیا، ہے نا۔ ان لوگوں میں سے کسی نے پیغمبری کا خدائی کا کوئی دعوی نہیں کیا۔

میڈم ایک لطیفہ سناؤں۔ میڈم نے کہا ہاں سناؤ۔ میڈم ایک بندے نے اعلان کر دیا کہ میں خدا ہوں۔ لوگوں نے اس کو پکڑ خوب دھویا۔ اس نے کہا یار مجھے دھونا بند کرو میں تمھیں ثبوت دیتا ہوں۔ لوگ ہکا بکا ہو رہ گئے کہ ہیں ایسی حماقت کا ثبوت، کیا ہو سکتا کیسے ہو سکتا۔ چل اچھا دے ثبوت۔ اس نے کہا میرے ساتھ چلو۔ لوگ اس کے ساتھ چل پڑے۔ وہ انہیں گھماتا گلیوں سے گزارتا اک گھر لے آیا۔ فخر سے لوگوں کی طرف دیکھا اور بولا اب دیکھنا۔ دروازہ پیٹا اندر سے ایک بوڑھی خاتون نکلی خدا ہونے کے دعویدار کو دیکھا اور بولی ”وئی خدایا تہ بیا رالے“۔ یعنی ہائے او میریا ربا تم پھر آ گئے۔

میڈم لطیفہ سن کر ہنسنے لگیں۔ تو میڈم دعوے تو لوگوں نے کیے ہیں۔ ان کی ہمت محنت استقامت کی داد تو دیں۔ میڈم بولیں ہاں ہاں ایسے دعویدار تو ہوں گے پیدا ہوتے رہیں گے۔

میڈم بولیں دیکھو پندرہ صدیاں پہلے پیغمبر آئے۔ انہوں نے ہم انسانوں کی مشکل آسان کر دی۔ خدا کا پیغام واضح کر دیا، بندے اور خدا کے بنیادی تعلقات کی وضاحت کر دی۔ ہم پر احسان یہ کیا کہ ہمیں بتا دیا کہ یہ کائنات سامنے ہے تسخیر کر لو۔ اب اپنی بات کر سکتے ہو۔ اپنی بات میں وزن ڈالنے کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ خدا کا پیغام ہے۔ بات ہی ہے ناں کر لیا کرو اپنی سوچ کے خود ذمہ دار ہو۔ جو بولو گے  اس کو دوسرے انسان پرکھ لیں گے۔ خیال اچھے ہوں گے کسی کام کے ہوں گے تو چل جائیں گے ماٹھے ہوں گے تو بہتر سے بدل جائیں گے۔

ہاں جیسا تم نے خدا لطیفے میں بتایا ہے۔ ایسے خداؤں پر غصہ نہیں کرنا ان سے پیار کرنا ہے ہمیں بس انسان بننا ہے کہ ایسے ہی آگے بڑھنا ہے۔ دیوانوں کو معاف کر دینا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi