شناختی کارڈ، ووٹ اور خواتین


خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے میں ہر ادارے نے حسبِ توفیق اور حسبِ منشا غفلت برتی مگر آخر کار ساری ذمہ داری عوام پر ڈال دی جاتی اور عوام کو غلط نمائندے چننے پر قصور وار ٹھہرایا جاتا، کبھی انہیں کاغذات نہ پورے کرنے پر موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو کبھی عوامی سطح پر کم آگاہی کا گلہ کیا جاتا۔ مگر کتنا ہی اچھا ہو کہ ہم پاکستان کے نظام کو سمجھ کر بات کریں۔ صحیح امیدوار چننے کی ذمہ داری جتنی عوام پر ہے اس سے کہیں زیادہ الیکشن کمیشن میں بیٹھنے والے افسران کی ہے جو شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے انعقاد کے لئے حکومتی خزانے سے معاوضے لیتے ہیں۔ اگر وہ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کرتے وقت قابلیت اور معیار کی یقین دہانی کروالیں تو عوام پر بوجھ کافی حد تک کم ہوسکتا ہے۔ عوام پر بوجھ تو تب ڈالیں جب ہم نے اِنہیں کسی طرح بھی آگاہی دی ہو کہ ہمارا قانون نمائندوں کے لئے کیا معیار طے کرتا ہے یا یہ کہ ہماری اقدار عوامی نمائندوں پرکیا ذمہ داریاں عائد کرتی ہے۔ بات دستاویزات کی کمی کی جائے تو تب بھی بات آگاہی پر آجاتی ہے۔ عوام کے کتنے فی صد کو معلوم ہے کہ پیدا ہونے پر پیدائش کا سرٹیفیکیٹ کیوں ضروری ہے اور کسی فرد کی وفات کا دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی صورت میں کیا پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔ شناختی کارڈ نہ بنوانے کی صوت میں ایک شہری کو کسی طرح کی قانونی اور شناختی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

اس تحریر کی ضرورت مجھے خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کی حالیہ مہم پر محسوس ہوئی۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رجسٹریشن ہی واحد مسئلہ ہے۔ بہت بڑا مسئلہ ہونے کے باوجود رجسٹریشن واحد مسئلہ نہیں اور نہ ہی مسائل کی جڑ ہے۔ نئے ووٹرز کی رجسٹریشن پر زور دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ موجودہ ووٹرز کی آگہی کا سامان مہیا کیا جائے۔ اس آگہی مہم میں ووٹ کی اہمیت اور ضرورت پر کھل کر بات کرنا ہوگی اور اس آگاہی مہم میں نادرا اور الیکشن کمیشن کے سٹاف کو شامل کرنا ناگزیر ہے تاکہ وہ اس کام کو اصل منصوبے کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ آگاہی مہم میں ہر عہدہ دار کی ذمہ داری بالکل واضح اور شفاف ہونی چاہئے۔

اے ٹی ایم سکرینز پر مختلف پیغامات کے ذریعے خواتین کو یہ آگہی دی جا رہی ہے کہ اپنا شناختی کارڈ اور ووٹ بنوائیں۔ اس آگہی مہم سے کسی تھوڑے سے پڑھے لکھے انسان کے بھی علم میں بہت زیادہ اضافہ نہ ہو تو بھی اتنا اضافہ تو ہوتا ہی ہے کہ ہمارے ہاں ” بینک بغیر شناختی کارڈ کے اکاؤنٹ کھول دیتے ہیں”۔ دوسرا طریقہ جو میری نظر سے گزرا، اشتہار لگانے کا۔ ہاں وہی جنہیں بینرز کہتے ہیں۔ہر دس فٹ کے فاصلے پر کھمبے پر اشتہار لگائے گئے ۔ اس میں یہ بھی تو کیا جاسکتا تھا کہ عوامی اکٹھ میں مرد و خواتین کو ووٹ کی اہمیت اور ضرورت پر ترغیب دی جائے۔ لیکن ہمارا مقصد تو دئیے ہوئے بجٹ کو مقررہ وقت میں مختلف صورتوں میں خرچ کرنا ہے۔ اگر مقصد شناختی کارڈ بنوانا ہو تو وقتاً فوقتاً اس مہم کا جائزہ لے کر متبادل حکمت عملی پر بھی توجہ دی جائے۔اس مہم کا تیسرا اہم کام شناختی کارڈ بنوانے کے لئے خواتین کو نادرا دفتر لے کر جاناہوتا ہے یا موبائل رجسٹریشن وین ان کے علاقے میں بلوائی جاتی ہے۔ ووٹر کی رجسٹریشن یا شناختی کارڈ بنوانے کے عمل میں دو محکمے بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں ایک الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دوسرا نادرا۔ الیکشن کمیشن ووٹرز کی تعداد بڑھانے کے لئے کسی حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ یہاں بات نہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سنجیدگی کے محرکات پر ہوگی نہ نتائج پر، وہ بزعم خود نادرا کو اپنے ماتحت سمجھے بیٹھے ہیں، جب کہ نادرا والے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرکی بات کو کسی سیاسی جماعت کے عام ورکر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

غیر سرکاری ادارے بڑی بڑی فنڈنگ حاصل کرکے ایسی مہمات سرکرنے کے لئے کثیر مشاہرے پر آفیسرز بھی بھرتی کرلیتے ہیں۔ مجھے شکایت معاوضوں پر نہیں بلکہ بنیادی توجہ روح کی عدم موجودگی پر ہے۔ جتنے لوگ اس کام میں شریک ہیں افسرانِ بالا سے لے کر آخری رضا کار تک اس مہم پر کام کرنے والے ہر شخص کو کام کی مقصدیت کا اچھی طرح علم ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں سے لے کر دور دریا کے بالکل کنارے پر رہنے والے مزدور اور کسان کو بھی اس سے مستفید ہونا چاہئے۔

ضرورت اس امر کی ہے ہر ادارے کے افسران بالا فیلڈ میں کام کرنے والے لوگوں کی زمینی حقائق پر مبنی رائے کا احترام کریں اور ان کی نشاندہی کئے ہوئے مسائل کو صرف رپورٹوں میں پراجیکٹ کی ناکامی کا سبب لکھ کر اگلے پراجیکٹ کے حصول کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ بروقت متبادل حکمتِ عملی اختیار کر کے منصوبے کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ پراجیکٹ آتے رہیں گے ہمارے حکمرانوں کی مہربانیوں سے بہت سے کام ابھی ایسے ہیں جو سول سوسائٹی کو ہی کرنے پڑیں گے۔ بس کوشش یہ کرنی چاہئے کہ جس بات پر ہم حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ انہیں امداد کی لت پڑ گئی ہے کہیں ہم سول سوسائٹی کے ادارے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال کر پاکستان کے تشخص مسلسل داؤ پر ہی تو نہیں رکھ رہے؟

نادرا اور الیکشن کمیشن کی ووٹرز کے حوالے سے دوری سمجھ سے بالاتر ہے۔ دونوں خود مختار ادارے اگر مل بیٹھیں تو ایک واضح حکمت عملی بنانے اور اس پر عملدرآمد کے لئے کسی تیسرے محکمے یا وزات کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ ایسی حکمت عملی بنانی چاہئے جو مردوں اور خواتین کے درمیان ووٹ کے فرق کو کم کرسکے اور خواتین ووٹ بنوانے کے لئے نادرا کی موبائل گاڑیوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔حال ہی میں اس سلسلے میں کچھ اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس کا حقیقی فائدہ عوام تک پہنچے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ حساس علاقوں میں خواتین کے لئے الگ اورمحفوظ پولنگ سٹیشن بنائے جائیں اور خواتین کو ان کے ووٹ کی اہمیت کے متعلق آگاہی دی جائے اور تادیبی اقدام کے طور پر ووٹ نہ دینے کی صورت میں معمولی جرمانہ عائد کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم مناسب حکمتِ عملی کی ذریعے ملک میں خواتین اور دیگر محروم طبقات کو انتخابی عمل میں شرکت کے بھرپور مواقع دیں۔ اس سلسلے میں عوام کو بھی چاہئے اپنے حق کے حصول کے لئے ہر اس دروازے پر دستک دیں جہاں سے حق ملنے کی تھوڑی سی بھی توقع ہے۔ ممکن ہے کہ عوام کی مسلسل کوشش سے حکمرانوں کے مقفل دماغ بھی کھل جائیں۔اوروہ اداروں سے ان کی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر باز پرس کرکے عوام کو ان کا حق دلائیں۔ عوام اور حکمرانوں کے بعد، سیاستدانوں اور ریاستی مشینری میں ہر فرد کو اپنے فرائض پورے کرنے ہوں گے۔ اگر ملک میں بسنے والا ہر شہری اپنے تشخص کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائے تو قومی سالمیت کے اہداف زیادہ دور نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).