پاکستان میں تیزی سے پھیلتا وبائی فلو؛ احتیاط اور بچاؤ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟


ان دنوں پاکستان میں سیزنل انفلوئنزا ایک وبائی صورت اختیار کیے ہوئے ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تحریر پیش کی جارہی ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس مرض سے بچ سکتا ہے۔

سیزنل انفلوئنزا ایک متعدی بیماری ہے جس کا موجب ایک وائرس ہے جو کہ بڑی آسانی سے ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہوجاتا ہے۔سیزنل انفلوئنزا کے جراثیم پوری دنیا میں گردش کر رہے ہیں اور کسی بھی جنس، عمر اور علاقے کو متاثر کرسکتے ہیں۔ موسمی فلو ایک بین الاقوامی مرض کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے کرہ ارض کے شمالی علاقوں میں یہ مرض موسمِ سرما میں پھیلتا ہے اور کرہ ارض کے جنوبی حصوں میں موسم گرما میں پھیلتا ہے۔

جیسا کے پہلے بتایا گیا ہے کہ کرۂ ارض کے وہ علاقے جہاں موسم بہت سرد یا بہت ٹھنڈا رہتا ہے، یہ بیماری موسم سرما میں پھیلتی ہے اور وہ علاقہ جات جہاں پر موسم متعدل رہتا ہے، یہ بیماری تقریباً سارا سال پھیل سکتی ہے۔

موسمی فلو (سیزنل انفلو ئنزا ) صرف انسانی صحت کو متاثر نہیں کرتا بلکہ کسی بھی معاشرے میں معاشی و اقتصادی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والے افرا د یعنی ورک فورس اور محکمہ صحت کے اوپر بھی ا ضافی بوجھ ڈالتا ہے۔

بنیادی طور پر چار قسم کے انفلوئنزا وائرس دریافت ہوچکے ہیں جو کہ ٹائپ اے، بی، سی اور ڈی ہیں جن میں ٹائپ A اور B زیادہ بیماری پھیلانے والے جراثیم ہیں۔ علاوہ ازیں ٹائپ A کے جراثیم کی مزید گروہ بندی موجود ہے۔ ٹائپ B کی مزید کوئی سب ٹائپ نہیں ہے۔ ٹائپ C معمولی بیماری پیدا کرتی ہے اور ٹائپ D صر ف جانوروں کو متاثر کرتی ہے۔

 انفلوئنزا کی ویکسین پہلی بار 1940ء کے اوائل میں بنائی گئی لیکن یہ ویکسین زیادہ موثر نہ تھی۔

علامات:
سیزنل فلو کی عمومی علامات میں اچانک بخار کا ہوجانا، زیادہ تر خشک کھانسی، سر میں درد ، پٹھوں اور جوڑوں میں درد ، گلے کا خراب ہونا ، ناک کا بہنا شامل ہیں۔ عام علامات میں سر درد، بخار، پٹھوں اور جوڑوں میں درد، کھانسی اور ناک کا بہنا، گلے کا خراب ہونا شامل ہیں۔ یہ علامات عام نزلہ و زکام میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن سیزنل انفلوئنزا میں ان علامات کی شدت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں عام نزلہ و زکام میں بچوں اور بزرگوں میں اسہال ، متلی و الٹی زیادہ ہوتی ہے ایک مستند معالج، جامع ہسٹری اور معائنے سے ان دونوں بیماریوں کی تشخیص کر سکتاہے۔ انفلوئنزا فلو شدید بیماری سے لے کر موت بھی لاسکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر سالانہ 3 سے 5 ملین افراد اس وائرس سے متاثر اور تقریباً 3 سے 6.5 ملین سالانہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔

یہاں یہ ابہام بھی دور ہوجانا چاہیے کہ زکام اور سیزنل انفلوئنزا دو الگ الگ بیماریاں ہیں اور ان کے جراثیم بھی الگ الگ ہیں البتہ دونوں کی علامات بہت ملتی جلتی ہیں۔ اس کے علاوہ زکام کی علامات کم شدت کی ہوتی ہیں اور یہ جلد ٹھیک ہو جاتی ہیں۔

میڈیسن کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’اگر آپ زکام کا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اس کا دورانیہ سات دن ہے اور اگر آپ علاج نہیں کرتے تو آپ ایک ہفتے کے اند ر ٹھیک ہو جائیں گے‘۔ عام زکام کے مقابلے میں سیزنل انفلوئنزا کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں اور اس کی پیچیدگیاں زیادہ ہوتی ہیں جن میں نمونیا سرفہرست ہے۔

پھیلاؤ:
موسمی انفلوئنزا عموماً متاثرہ شخص کے کھانسنے اور چھینکنے سے دوسر ے شخص کو براہ راست منتقل ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مریض کے ہاتھوں، رومال، تولیہ ، ٹشو پیپر وغیرہ جن پر ناک اور گلے کی رطوبات لگی ہوں، ان سے بھی یہ مرض دوسرے افراد تک منتقل ہو سکتا ہے۔ اس لیے انفلوئنزا سے متاثرہ شخص کو چاہیے کہ جب بھی کھانسے یا چھینکے تو اپنی ناک اور منہ کو ڈھانپ کر رکھے۔

یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے سے 6 فٹ کے فاصلے تک جراثیم پھیل سکتے ہیں۔ اس لیے متاثرہ شخص سے فاصلہ رکھنا ضروری ہے اور متاثرہ شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے منہ کو ماسک سے بھی ڈھانپ کر رکھے ماسک دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مریض کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں پر نہیں کھانسنا چاہیے اور اگر کھانسی یا چھینک روکنا ناممکن ہو تو قمیص کی آستین کو استعمال کرے۔

اس کے علاوہ معاشرے کے عام افراد اپنے ہاتھ باقاعدگی سے دھوئیں اور خشک کریں۔ خصو صاً کھانسنے اور چھینکنے کے بعد بھی ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھوئیں اس ضمن میں انٹی سیپٹک ہینڈ واش بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مریض کو چاہیے کہ وہ آنکھ ، ناک اور منہ کو بلا ضرورت ہاتھ نہ لگائے۔

ایک شخص کے جسم میں وائرس کے داخلے کے 1 سے 4 روز کے اندر بیماری کی علامات پیدا ہوتی ہیں اور بیماری تقریبا ًایک سے تین ہفتے میں ختم ہوجاتی ہیں لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ رو بصحت ہونے کے بعد بھی دو سے تین ہفتے تک جراثیم کا اخراج کھانسنے اور چھینکنے سے جاری رہتا ہے اسی لیے مریض اور مریض کے لواحقین دونوں کو احتیاط کی ضرورت رہتی ہے۔

تشخیص:
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ زیادہ تر مریضوں کی تشخیص روٹین میڈیکل چیک اپ کے ذریعے آسانی سے ہوجاتی ہے البتہ 100 فیصد تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں جن کے ذریعے وائرس Antigen یا (Genome)  ناک اور گلے سے حاصل کی گئی رطوبات سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلڈ ٹیسٹ T-PCR, ELSA, Immunofluoresense ، Virus Culture اور وائرس کلچر بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ یہ تمام ٹیسٹ پاکستان میں ہر جگہ بآسانی دستیاب ہیں اور عوام کی پہنچ میں ہیں۔

علاج :
تشخیص کے بعد مریضوں کا ان کی علامات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے جس میں گھر پر بیڈ ریسٹ دیا جانا چاہیے تا کہ معاشرے کے دیگر افراد تک جراثیم نہ پہنچیں۔ بخار اور درد کو کم کرنے والی ادویات بھی دی جاتی ہیں۔مر یض کی خوراک کو بہتر کیا جا تا ہے اور اس کے علاوہ جراثیم کے خلاف اینٹی وائرل ادویات دی جا تی ہیں بہتر نتائج کے لیے جتنا جلدی ممکن ہوسکے یہ ادویات شروع کردینی چاہئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ آج کے جدید دور میں ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے جس کا اثر تقریباً ایک سال تک رہتا ہے۔ جہاں پر ویکسین دستیاب نہ ہو وہاں پر اینٹی وائرل ادویا ت دینی چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ اینٹی وائرل اور ویکسی نیشن اکٹھی بھی دی جاسکتی ہیں یہ ویکسین مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے اور زیادہ مہنگی بھی نہیں لیکن 6 ماہ سے کم عمر بچوں کو ویکسی نیشن نہیں دینی چاہیے۔ اگرچہ موسمی فلو سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ویکسی نیشن ہے لیکن یہ ویکسی نیشن 70 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی صرف ایک سال تک محدود ہوتا ہے اور ہر سال نئی ویکسی نیشن کی ضرورت رہتی ہے۔

سب سے پہلے مبتلا ہونے والے افراد
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہائی رسک گروپ میں جو لوگ شامل ہیں، ان میں 65 برس سے زائد افراد، 6 ماہ سے 5 سال تک کے بچے، حاملہ خواتین، ہیلتھ ورکرز ، ایک ہی جگہ پر رہائش پذیر یا کام کرنے والے افراد اور بچے مثلاً نرسنگ ہومز، اولڈ ہومز، ورکنگ ہاسٹلز اور اسکولز ہاسٹلز میں رہائش پذیر اساتذہ و طالب علم ہیں۔ ان دنوں میں لوگوں کی نقل حرکت کو محدود رکھا جائے، اوور کراوئڈنگ کو کم کیا جائے، غیر ضروری میل جول سے اجتناب برتا جائے اور پبلک مقامات سے دور رہا جائے۔

ان ہائی رسک گروپ میں شامل افراد کو لازمی طور پر ویکسی نیشن کرانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹائپ A اور ٹائپ B شوگر کے مریض، سانس کی بیماریوں مثلاً دمہ و الرجی، امراض قلب، جگر اور گردوں کے پرانے مریض، کم قوتِ مدافعت والے افراد، کینسر کے مریض، ایچ آئی وی کے مریض، ذہنی و جسمانی معذوری کے شکار کو بھی ویکسی نیشن لازمی کرانی چاہیے۔

یہ بات بڑی توجہ سے زیر غور لانی چاہیے کہ وہ تمام خواتین و حضرات جن کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) 40 سے زیادہ ہے، عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے مطابق انہیں بھی ویکسی نیشن لازمی طور پہ کروانی چاہیے۔

یہ پاکستان میں سردی میں ہی کیوں پھیلتا ہے؟
یہ پہلو بھی قابل تجسس ہوگا کہ سیزنل انفلوئنزا شمالی کرۂ ارض بشمول پاکستان میں سردی کے موسم میں کیوں ہوتا ہے؟ اس میں چند وجوہات یہ ہوسکتی ہیں کیونکہ سرد موسم میں لوگ سردی سے بچنے کے لیے بند کمروں میں زیادہ تعداد اور زیادہ دیر تک رہتے ہیں، اوور کراؤڈنگ کرتے ہیں اس دوران متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے سے مرض بڑی آسانی سے پھیل سکتا ہے جب کہ باہر ایسا امکان کم ہے کیوں کہ قدرت نے سورج کی روشنی میں پائے جانے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو جراثیم کش بنایا ہے۔

موسم سرما میں کیونکہ سورج کی روشنی بھی کم ہوتی ہے یا اس کی طاقت کم ہوتی ہے اس وجہ سے الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن جراثیم کو نہیں مار سکتی۔ علاوہ ازیں ٹھنڈے موسم میں ہوا خشک ہوجاتی ہے جو کہ سانس کی نالیوں میں موجود جھلیوں کو خشک کردیتی ہے اور جراثیم آسانی سے نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرد موسم کی وجہ سے انفلوئنزا کا وائرس جلد ی Decompose نہیں ہو تا اس لیے یہ روز مرہ کی قابلِ استعمال چیزوں مثلاً تولیہ، رومال، ٹشو، دروازے کے ہینڈل وغیرہ پر زیادہ دیر تک موجود رہتا ہے۔

قارئین کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ سورج کی روشنی جب جلد پر پڑتی ہے تو اس سے وٹامن ڈی بنتا ہے جو کہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔ کم روشنی کے باعث وٹامن D کم بنتا ہے، جس کی وجہ سے جسم کا دفاعی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور انسان بآسانی انفلوئنزا وائرس کا شکار ہوسکتا ہے۔

کیا سیزنل انفلوئنزا قابلِ کنٹرول ہے؟
سیزنل انفلوئنزا ایک قابلِ کنٹرول بیماری ہے جو پاکستان میں ہر سال نومبر سے اپریل تک رہتی ہے۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں خصوصاً پنجاب حکومت سیزنل انفلوئنزا سے بچاؤ، روک تھام اور علاج کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں انفلوئنزا فلو کے لیے الگ یونٹ بنائے جاچکے ہیں اور لوگوں کو علاج کے لیے سہولیات مہیا کر رہے ہیں لیکن سب سے بہتر کنڑول صفائی جیسے سنہرے اصول میں پنہاں ہے۔ امید ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنا بھرپور کردار ادا کرے تو اس مرض پر قابو پانا ممکن ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق وہ علاقے جن میں انفلوئنزا کا پھیلاؤ کم ہے:
1- وسطی ایشیا
2- کیریبین
3- جنوبی امریکا
4- وسطی امریکا
5- جنوب مشرقی ایشیا
6- مشرقی یورپ

عالمی ادارہ صحت کے مطابق وہ علاقے جن میں انفلوئنزا کا پھیلاؤ زیادہ ہے:
1- جنوبی امریکا ( کینیڈا، میکسیکو)
2- جنوبی افریقا ( مصر، مراکش، تیونس)
3- مغربی ایشیا (اسرائیل، اردن)
4- مشرقی ایشیا ( شمالی چین، کوریا)
5- مشرقی افریقا (مڈگاسکر،موزمبیق)

بشکریہ؛ ایکسپریس نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).