پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی افسوسناک پٹائی


کل یہ خبر پڑھ کر دل اداس ہو گیا کہ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نہایت پر امن طلبہ پر چند دوسرے طلبہ نے حملہ کر کے ان کو بہت مارا پیٹا۔ اتنا مارا اتنا مارا جتنا کوئی کسی جانور کو بھی مارے تو دل برا ہوتا ہے۔ ایسا کرنا بری بات ہے۔ جمعیت کی اتنی پٹائی اور وہ بھی پنجاب یونیورسٹی میں نہایت افسوس ناک ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس طرح دنگا فساد اور بدمعاشی کرنے کی روایت پنجاب یونیورسٹی میں کس نے ڈالی ہے۔ کس کی پرم پرا ہے، کس کی روایت ہے کہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو یونیورسٹی میں برداشت نہ کیا جائے۔ کیا اچھے طالب علم ایسے ہوتے ہیں؟

ہم تو خیر پنجاب یونیورسٹی سے دور رہتے ہیں کیونکہ ادھر کے بارے میں مسلسل خبریں آتی رہتی ہیں کہ طلبا کا کوئی گروہ دوسرے طلبہ، اساتذہ، حتی کہ وائس چانسلر کے ساتھ بھی غنڈہ گردی کرتا ہے۔ اس لئے اخبارات کی خبروں سے ہی معلومات لی ہیں۔ خبروں کے مطابق اسلامی جمعیت طلبہ کے نہایت پر امن طلبہ اگلی صبح کے ایک فیسٹیول کے لئے سٹال وغیرہ رات کو لگا گئے تھے۔ صبح نور پیر کے وقت پختون بلوچ سٹوڈنٹس فیڈریشن والوں نے ادھر جا کر احتجاج شروع کر دیا۔ پچھلے برس بھی ایک فیسٹیول پر چند شرپسند طلبہ نے حملہ کر دیا تھا تو پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ تنظیموں کی جانب سے کسی قسم کے ایونٹ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ فساد شروع ہو گیا۔ سٹالز وغیرہ میں توڑ پھوڑ اور ارد گرد آتش زنی کی گئی۔ جمعیت نے پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کو کہا کہ اگر ساڑھے گیارہ بجے تک شرپسندوں کو سزا نہ دی گئی تو وہ ایک نہایت ہی پرامن احتجاج کریں گے۔ اس پرامن احتجاج کے نتیجے میں پولیس پر کسی نے پتھراؤ اور حملہ وغیرہ کر دیا اور فسادات پھوٹ پڑے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے طلبہ پرامن احتجاج کرتے ہوئے ہاتھوں میں بینر، ڈنڈے اور پتھر اٹھا کر گھومتے رہے۔ ادھر ہی مخالف طلبہ کے ایسے ہی سے گروہ بھی بری نیت سے پھر رہے تھے۔ دونوں کا ٹکراؤ ہوتا رہا۔ ٹکراؤ لکھنا شاید غلط ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ جمعیت کے پرامن نوجوان اپنی روایات کے عین مطابق دوسرے گروہ کے ڈنڈوں کے وار اپنے کاغذی بینروں پر روکتے رہے ہوں گے اور انہوں نے خود کوئی غلط حرکت نہیں کی ہو گی اور نزدیکی ہسپتال میں صرف ان کے زخمی کارکن ہی ہوں گے۔

اس کے بعد دو دن پنجاب یونیورسٹی میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہی۔ اب پنجاب کے وزیر تعلیم نے یہ ظلم کیا ہے کہ پختون بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن کے علاوہ جمعیت کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تماشا دیکھیے کہ پنجاب کے وزیر ہائیر ایجوکیشن رضا گیلانی یہ کہتے ہیں کہ اس فساد کی ذمہ داری دونوں گروہوں پر ہے۔ یعنی جمعیت جیسی پرامن تنظیم کو بھی ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے حالانکہ جمعیت نے واضح کیا ہے کہ پہلے اس پر حملہ کیا گیا تھا۔

ہمیں حیرت ہے کہ یونیورسٹی میں عدم برداشت کا ماحول کہاں سے آیا؟ یہ فیسٹیول اور ان میں کلچرل شو وغیرہ تو امن اور خوشی کی علامت ہوتے ہیں۔ کون اتنا تنگ نظر ہے کہ اس نے ان فیسٹیولز پر حملے کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے؟ ہمیں توقع ہے کہ دوسرا گروہ یہ الزام جمعیت پر ہی لگا دے گا اور اس گروہ کی حمایت کرنے کو سینکڑوں ہزاروں گواہ بھی آ جائیں گے جو کہیں گے کہ انہوں نے اپنے دور میں جمعیت کو بارہا ایسا کرتے دیکھا ہے۔ ہم ان کی گواہی مسترد کرتے ہیں۔ اور ایسا کرنے کی ہمارے پاس معقول وجوہات ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ جمعیت ایک نہایت امن پسند طلبہ تنظیم ہے جو غنڈہ گردی کو نہایت مذموم فعل سمجھتی ہے۔ اگر بہ امر مجبوری یہ کرنی بھی پڑ جائے تو جمعیت کی نیت نیک ہی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا طریقہ غلط ہو مگر یاد رہے کہ نیت نیک ہی ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ غنڈہ گردی کرنے پر ان کو دوسرے طلبہ اکساتے ہیں۔ یہ گمراہ طلبہ کبھی میوزک سنتے ہیں، کبھی کوئی فیسٹیول کر دیتے ہیں، کبھی کسی لڑکی سے بات کر لیتے ہیں، کبھی جمعیت کے اصلاحی پروگراموں میں شرکت سے انکار کرتے ہیں، اور کبھی سگریٹ پی کر نہ صرف یونیورسٹی کا ماحول خراب کرتے ہیں بلکہ پلوشن بھی پھیلا دیتے ہیں۔ اب آپ خود ہی انصاف کریں کہ ان کو پیار محبت سے روکنا کیا غنڈہ گردی کہلائے گا؟ ویسے بھی پیار محبت میں کیے جانے والے ظلم کی تعریفوں سے تو ہماری شاعری بھری پڑی ہے، اس پر کیسا اعتراض؟ آپ خود یہ رومانی اشعار ملاحظہ فرما سکتے ہیں

ان کا اک پتلا سا خنجر ان کا اک نازک سا ہاتھ
وہ تو یہ کہیے مری گردن خوشی میں کٹ گئی

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

میں نے اس کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا

ان اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ جمعیت پر الزامات غلط ہیں۔ یہ دوسرے لوگ جمعیت کا محبوبانہ انداز دیکھ کر خود ہی عشق کے ہاتھوں گھائل ہو جاتے ہیں اور ایف آئی آر ناحق جمعیت کے خلاف درج ہو جاتی ہے۔

امید ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ غنڈہ گردی میں ملوث تمام عناصر سے یونیورسٹی کو پاک کر دے گی اور جو کوئی بھی ایسا کرتا پایا جائے اسے باہر نکال دے گی۔ اس معاملے میں کوئی رو رعایت نہیں برتی جانی چاہیے خواہ نیک دل جمعیت بھی اپنی ازلی رحم دلی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے دنگا فساد کرنے والے طلبہ کو معاف کرنے کی سفارش کرے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar