طاہر القادری کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے


زندگی میں وہ تمام لوگ جو سیلف میڈ ہیں، مجھے اچھے لگتے ہیں۔ محنت کر کے اپنا نام بنانے والا ہمیشہ قابل تحسین ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ جھنگ کی ایک پسماندہ وادی سے سفر شروع کرنے کے بعد پوری دنیا میں انہوں نے اپنا نیٹ ورک قائم کیا۔ وہ بلا کے مقرر، بہترین محقق اور تنظیم سازی کا وسیع و عریض کامیاب تجربہ رکھتے ہیں لیکن شاید بنی بنائی کھیتی اجاڑنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ایک عمارت جس کے ستون آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہوں کیسے وہ زمین پر آگرتی ہے۔ ؟ کیا کسی بھی میدان میں کامیابی کے لئے صرف ذہانت ہی درکار ہے اور کیسے انسانی نفسیات میں پوشیدہ کچھ اصناف انسان کے زندگی بھر کے سفر کو نقصان پہنچاتی ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے ڈاکٹر قادری کے گزشتہ چند سالوں کا مطالعہ کریں۔

2004 میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2005 میں استعفی دیا اور پھر کینیڈا تشریف لے گئے۔ اور پھر2012 میں اچانک انقلاب کی بازگشت سنائی دینے لگ 2013 جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ مارچ کے آغاز سے پہلے انہوں نے جتنے انٹرویوزاور پریس کانفرنسزکیں۔ ان سے ہمیشہ پوچھا گیاکہ اسلام آبادپہنچنے کے بعد آپ کالائحہ عمل کیا ہوگا۔ اس کا جواب وہ ہمیشہ یہ دیتے رہے کہ یہ ایک راز ہے اور اس کا اعلان اسلام آباد میں کیا جائے گا۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہاں شدید سردی میں ان کے چاہنے والے لائحہ عمل کا انتظار کرتے رہے مگر جواب ندارد۔ پھر2014 جون میں پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب لکھا گیا۔ جون میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا، جس سے ان کی آواز اور مطالبات کو عوام کی زیادہ ہمدردی میسرآئی۔ 2014 میں بھی ان کی بے شماروفود سے ملا قاتیں ہو ئی۔ انٹر ویوزہوئے اور میڈیا ٹاک ہوئی۔ ان سے پھر پوچھا گیا کہ اگر حکو مت آپ کی بات نہیں ما نتی تو پھر آپ کیاکر یں گے۔ وہ تب بھی ہر صحافی، ہر کالم نگاراورہردوست کو ایک ہی جواب دیتے کہ اس لائحہ عمل کا اعلان میں اگلی ملاقات میں کروں گا۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ جان نچھاور کرنے والے مریدوں اور بیشمار عوامی ہمدردی کے باوجود وہ65 دن کے دھرنے کے بعد ناکام لوٹے۔

پھر وقت گزرتاگیا، قبلہ قادری صا حب جب بھی آتے، ایسا لگتا کہ اس بار تو انقلاب آ ہی جائے گا، آسمان گر پڑے گا اور زمین پھٹ جائے گی۔ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ اب بھی کچھ مہینوں سے وہ پاکستان میں ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کی صورت میں ایک نئی حکمت عملی لے کر آئے ہیں۔ دسمبر2017 میں بتایا گیا کہ31دسمبرکو لائحہ عمل بتاؤں گا، پھر 31دسمبر کو بتایا کہ8جنوری کو لائحہ عمل بتایا جائے گا۔ پھر بتایا کہ عظیم الشان تحریک کاآغاز17جنوری سے ہوگا۔ اور جب ان سے پوچھا گیا کہ لائحہ عمل کیا ہوگاتو جواب پھر وہی کہ میرے چاند، 17جنوری کو بتاؤ ں گا۔ 17جنوری کے جلسے کے بعد پتہ چلا کہ ان کے پاس اب بھی کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ باربارایسا کیوں ہوتا ہے؟

وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو لگتا ہے کہ حکمران کا استعفی ان کی کامیابی ہے، اب استعفی لینے یا کوئی بھی حکومت گرانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ آپ اسمبلی کے اندر عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں اور دوسرا آپ احتجاج کے ذریعے کسی کو گھرجانے پر مجبور کر دیں۔ احتجاج کے ذریعے گھر بھیجنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ ایک وہ جو مہذب معاشروں میں نظر آتا ہے اور دوسرا وہ جو غیر مہذب معاشروں میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔ مہذب ملکوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ کسی سیاست دان کے خلاف اگر چند ہزار لوگ ہاتھو ں میں پلے کارڈز لے کر سڑکوں پر نکل آئیں تو وہ سمجھتا ہے کہ یا ربس۔ شرم کی وجہ وہ خود ہی گھر چلا جاتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ ہمارے ہاں سود مند نہیں ہے۔ یہاں تو اگر آپ کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے اور آپ 500لوگ لے کر کسی سڑک کے ایک طرف 500 دن تک بھی کھڑے رہیں تو حکومت تو کیا۔ علاقہ کا ایس پی بھی نہیں آئے گا اور اگر صرف100لوگ سڑک کے بیچ میں کھڑے ہوکر ٹائر جلاکر احتجاج کریں تو چند گھنٹوں بعد سنوائی ہوجاتی ہے۔

اب ڈاکٹر قادری کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے جب بھی پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی حکمت عملی کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ایک گملا بھی نہیں ٹوٹے گا۔ ایک پتا بھی نہیں گرے گا اور انقلاب آجائے گا۔ جبکہ ہمارے ہا ں تاریخ گواہ ہے کہ احتجاج کے ذریعے مسئلہ صرف تب حل ہوتا ہے جب کوئی امن وامان کی صورتحال کو خطرات لاحق ہو جائیں اور پھر کوئی تیسری قوت مسئلہ حل کروادے۔ لیکن چونکہ ڈاکٹر قادری اس بات کے پکے ہیں کہ گملا بھی نہیں ٹوٹے گا اور استعفٰی آجا ئے گا تو جان لیں کہ ان کے پا س کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ اب تو خیر ویسے ہی انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو اپنی ذمہ داری کے بجائے، جوائنٹ اونرشپ میں دے دیا ہے یعنی کسی کی بھی ذمہ داری نہیں، اللہ تعالیٰ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو انصاف فراہم کرے۔ ڈاکٹر صاحب سے بھی گزارش ہے کہ سنجیدگی کامظاہرہ کریں۔ محض جوش خطابت سے کبھی انقلاب نہیں آیا کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).