بیوی کی پٹائی کے شرعی طریقے


اسلام نے جن معاشرتی اداروں کو خصوصی اہمیت دی ہے ان میں خاندان کا ادارہ بھی ہے۔ اسلامی اخلاقیات اور تعلیمات کا مطالعہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام شوہر بیوی کے رشتے کو محض دو مخالف جنسوں کا تعلق نہیں مانتا بلکہ اسے ایک خاندان کے نام سے جانے جانے والے ادارے کی بنیاد کے طور پر دیکھتا ہے اس لئے دونوں کے درمیان باہمی احترام اور اپنائیت کے معاملہ کی بار بار تلقین کرتا ہے۔ اسلام شادی کو ایک کانٹریکٹ یا معاہدہ مانتا ہے اور دونوں ہی فریقوں کے لئے یکساں احترام اور مختلف حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اب اس کو ذہن میں رکھ کر ملاحظہ فرمائیے کہ ہمارے مفتیان کرام بیوی کو کس درجہ میں رکھتے ہیں؟ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے سوال نمبر 9771 میں پوچھا گیا کہ کیا بیوی کو مارنے کا حق ہے؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ بیوی کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور یا اندیشہ ہو تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سمجھاوٴ اگر وہ محض سمجھانے سے باز نہ آئیں تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بستر اپنے سے علاحدہ کردو اور جو اس شریفانہ سزا و تنبیہ سے بھی متأثر نہ ہو تو پھر بطور اصلاح اس کو معمولی مار مارنے کی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے۔

اس فتوے کو دو بار غور سے پڑھئے اور بتائیے کہ کیا میں جو نتائج نکال رہا ہوں وہ غلط ہیں؟ فتوے میں نافرمانی کا صدور یا اندیشہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن اس کی وضاحت بالکل بھی نہیں کی گئی کہ کس قسم کی نافرمانی کا اندیشہ۔ مطلب اگر شوہر رات گئے گھر آئے اور بیوی کو جگا کر کہے کہ وہ اسی کپکپاتی سردی میں اس کے کپڑے دھوئے، اور اگر بیوی اس بات کے جواب میں کہے کہ ابھی سردی ہے کل دن میں دھوپ نکلے گی تو دھو دوں گی تو عورت کا یہ عمل چوں کہ نافرمانی ہوا اس لئے مفتی صاحب کے مطابق عورت کو پہلے سمجھایا جائے گا پھر اگر وہ نہ مانی تو بستر الگ کرنے کی تنبیہ کی جائے گی اور پھر بھی بیوی نے عذر کیا تو شوہر اس کو اتنا مارنے کے لئے حق بجانب سے جس سے بس ہڈیاں نہ ٹوٹیں اور زخم نہ پڑے۔

اسی دارالافتاء سے سوال نمبر155801 میں کسی نے معلوم کیا کہ شوہر کا بیوی پر اور بیوی کا شوہر پر کیا حقوق ہیں؟ اس کے جواب میں جو فتویٰ دیا گیا اس میں مفتی صاحب شوہر کی ذمہ داریوں کے باب میں بتاتے ہیں کہ اگر کبھی بیوی کو مارنا سخت ناگزیر ہو تو لکڑی وغیرہ کا استعمال نہ کرے صرف ہاتھ سے مارے اور سر اور دیگر اہم اعضاء پر نہ مارے۔ اسی فتوے میں جب بیوی کی ذمہ داریوں کی بات آئی تو مفتی صاحب نے بیویوں کو ہدایت فرمائی کہ اپنے شوہر کے ساتھ کبھی بھی بے ادبی اور گستاخی کا انداز اختیار نہ کرے۔ شوہر اگر کسی بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرے اور کچھ کہے تو ترکی بہ ترکی اس کو جواب نہ دے اگرچہ وہ ناحق پر ہو۔

اس فتوے کے اندر موجود تضاد اس قدر واضح ہے کہ کسی تبصرے کی حاجت ہی نہیں ہے۔ شوہر کو مارنے کے شرعی راستے بتا دیے گئے جبکہ بیوی کو حکم ہوا کہ شوہر کی بے جا اور غلط بات پر اپنا موقف رکھنا تو دور وہ پلٹ کر جواب بھی نہ دے جبکہ پتہ بھی ہو کہ شوہر کی بات ناحق ہے۔ اب اس مرحلہ پر ظلم پر خاموشی کو اطاعت اور اخلاق کا مظہر قرار دے دیا گیا جبکہ شوہر کے لئے یہ اجازت ہے کہ وہ ڈانٹ ڈپٹ ہی نہیں مار پیٹ بھی کر سکتا ہے۔ اس مرحلہ پر اول الذکر فتوے کا ایک جملہ ذہن میں رہے کہ شوہر نافرمانی کے صدور ہی نہیں اندیشے پر بھی بیوی کو مار سکتا ہے۔ مطلب اگر ایک شخص اپنی بیوی کو حکم دے کہ فورا جوتے صاف کرو اور اگر وہ کچھ کہنے کے لئے لب کھولے اس سے پہلے ہی شوہر اس کو ایک چانٹا رسید کر دے تو بیوی یہ فریاد نہیں کر سکتی کہ میں تو یہ کہنے والی تھی کہ ابھی فورا صاف کرتی ہوں کیوں کہ شوہر کہہ سکتا ہے کہ مجھے لگا کہ تم منع کرو گی سو میں نے نافرمانی کے اندیشے کے سبب تمہیں تھپڑ مارنے کا شرعی حق استعمال کر لیا۔

یہاں پر یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اسلام کی رو سے بیوی پر گھریلو کام کاج سرے سے فرض ہی نہیں ہیں پھر نافرمانی سے مراد کیا لیا جائے؟ اگر اس سے مراد ہمبستری سے انکار کرنا ہے تو اس کی وضاحت فتاویٰ میں ہونی چاہیے تاکہ اس نوعیت سے بھی بحث ہو سکے۔

یہ تو بات ہوئی دارالعلوم دیوبند کی۔ اب پاکستان میں دیوبندی نظریات کے ایک بڑے ادارے جامعہ بنوریہ کراچی کے فتاویٰ میں عورت کو پیٹنے کے احکامات ملاحظہ ہوں۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ بیوی کو مارنے کی اجازت اسلام میں کن باروں پر ہے۔ کیا گھر کی معمولی لڑائی جھگڑے پر بھی بیوی اور جوان بیٹیوں کو مارا جا سکتا ہے جبکہ وہ کوئی غیر اسلامی کام نہ کر رہے ہوں۔ اور پھر سورہ نساء کو دکھانا ٹھیک عمل ہے کہ دیکھو عورت کو مارنے کا حکم ہے؟ اس کے جواب میں جامعہ بنوریہ نے فتویٰ نمبر 19775 میں کہا کہ شوہر کے لئے بیوی کو گناہ کے ان کاموں پر مارنے کی اجازت ہے جس پر شرعا کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے۔ مثلا شوہر کی جنسی خواہش پوری نہ کرنا۔ اس کے کہنے کے باجود زینت نہ کرنا۔ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا، اسے برا بھلا کہنا۔ فتوے میں آگے درج ہے کہ اتنی زور سے نہ مارا جائے کہ کوئی عضو تلف ہو جائے یا ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے یا کھال پھٹ جائے بلکہ اس طرح مارنے کا حکم ہے کہ تادیب بھی ہو جائے اور نشان بھی نہ رہے۔

اس فتوے میں ان کاموں پر پٹائی کی اجازت ہے جن پر شرعی طور پر سزا نہیں ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ ایسے کون کون سے غلط کام ہیں جن پر شوہر خفا ہو سکتا ہے۔ مثلا جھوٹ، بدکاری اور چوری ظاہر ہے ان باتوں کی شرعی سزائیں موجود ہیں اس لئے ماننا چاہیے کہ شوہر کے حکم سے چائے نہ بنانا، شدید بیماری کے سبب کپڑے دھونے سے معذرت کرنا، بخار کے باعث ہمبستری سے انکار کرنا جیسے امور جن کی شرعی سزائیں نہیں ہیں ان سب کو کرنے پر شوہر بیوی کو اتنا مار سکتا ہے کہ بس ہڈی نہ ٹوٹے اور کھال نہ پھٹے۔

شوہر کے سلسلہ میں مفتی صاحب فرما چکے ہیں کہ اگر بیوی اس کے ساتھ سونے سے انکار کر دے تو وہ اسے پیٹ سکتا ہے لیکن اسی جامعہ بنوریہ سے جب پوچھا گیا کہ بیوی کا ناراضگی کی وجہ سے اپنا بستر الگ کرنا کیسا ہے؟ اب اس کے جواب میں فتویٰ نمبر29451 میں کہا گیا کہ میاں بیوی کی آپس کی ناراضگی کی صورت میں جبکہ اس کا شوہر اسے الگ سونے سے منع بھی کرتا ہو اپنے بستر پر بلاتا ہو اور وہ پھر بھی علیحدہ سوتی ہو یہ شرعاً درست نہیں۔

اس فتوے کا سیدھا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر شوہر بیوی پر دن بھر تہمتیں لگائے، گالیاں دے، مار پیٹے اور بے عزت کرے اس کے بعد جب رات ہو تو عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کونے میں دبک کر کم از کم آنسو ہی بہا سکے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ شوہر کے بلاتے ہی اس کے بستر پر جا لیٹے اور اس کی خدمت کرے۔ اس تکلیف اور اذیت کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مفتی صاحب کو مدرسہ کے مہتمم دن بھر طلبہ کے سامنے ذلیل کریں اور شام کو انہیں مفتی صاحب سے تقاضہ کریں کہ وہ اسی مہتمم کے سامنے ادب سے بیٹھ کر میٹھی میٹھی باتیں کریں تو مفتی صاحب پر کتنا گراں گزرے گا۔ یاد رہے کہ مفتی صاحب کی یہ اذیت اس عورت کی اذیت کے سامنے ایک ذرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔

شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی احترام کے رشتے کی اسلامی تعلیم کو مفتیان نے کس طرح سمجھا ہے اس کی ایک اور مثال جامعہ بنوریہ کے فتویٰ نمبر 27902 میں دیکھئے۔ کسی نے سوال کیا کہ بیوی کا شوہر کو برا بھلا کہنا اور سخت الفاظ استعمال کرنا کیسا ہے؟ اس کے جواب میں فتویٰ صادر فرمایا گیا کہ شوہر کو برا بھلا کہنا انتہائی گھٹیا حرکت ہونے کے ساتھ شرعاً ناجائز اور حرام ہے اس لئے بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر بصدق دل توبہ کرے اور شوہر سے دست بستہ معافی بھی مانگے۔ اس فتوے میں باقی سب باتوں کو چھوڑ بھی دیں تو ذرا عورت کو دی گئی یہ ہدایت غور سے پڑھئے کہ عورت کا کام صرف توبہ کرکے نہیں چلے گا بلکہ اسے اپنے شوہر سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگنی ہوگی۔ امید ہے آپ اس سے پہلے ذکر کیے گئے اس فتوے کو نہیں بھولے ہوں گے جس میں کہا گیا تھا کہ عورت اپنے شوہر کی بے جا باتوں کا بھی جواب نہ دے۔

ان فتاویٰ کو دیکھ کر وہ احادیث یاد آتی ہیں جن میں بار بار حکم دیا گیا ہے کہ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام کی زندگیاں نمونے کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ خود حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی ازدواجی زندگی کا ورق ورق الٹ جائیے تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کا نظریہ خاندان کن بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ان باتوں سے صرف نظر کرکے بیوی کی پٹائی کے شرعی طریقے بتانے والے یہ فتاویٰ اسلام کے سماجی تصور کے بارے میں کیا تاثر دیتے ہوں گے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔

اس مرحلہ پر ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ مفتیان کرام بیوی کی پٹائی کے سلسلہ میں سورہ نساء کی آیت کو دلیل بناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں میری گذارش یہ ہے کہ اس ہدایت کو اس کے مکمل سیاق و سباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ بہت سے علماء نے آیت میں درج الفاظ کا ترجمہ زد و کوب یا مار پیٹ کرنے پر کلام کیا ہے۔ اس سلسلہ میں روایتی تراجم کے ساتھ ساتھ جدید تراجم کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔ اس آیت کے ذیل میں کیسی کیسی باتیں ہوئی ہیں اس کی ایک مثال اسلامی علوم کی مشہور ویب سائٹ المورد پر شائع ایک مضمون میں پڑھنے کو ملی۔ مضمون کے مطابق آیت میں درج الفاظ ’اہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ‘ کی ایک حیرت انگیز تفسیر محمد بن جریر طبری نے کی۔ انہیں امام المفسرین بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے آیت کے اس ٹکڑے کے بارے میں کم و بیش چار اقوال دینے کے بعد فرمایا کہ میرے نزدیک سب سے بہتر قول یہ ہے کہ ’اھجروھن‘ کو ’ھجار‘ سے ماخوذ مان کر یہ ترجمہ کیا جائے اور ان عورتوں کو بستر کے ساتھ اس رسی سے باندھا جائے جس سے اونٹ کے پاؤں باندھے جاتے ہیں اور پھر ان کو جنسی ملاپ پر مجبور کیا جائے۔ اس عبارت سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بعض روایتی تراجم اور تفاسیر پر نظر ثانی کتنی اہم ہو جاتی ہے۔

اخیر میں یہ گذارش کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم بار بار دہراتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو برابری کا حق اور باعزت زندگی کی ضمانت دی ہے ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ مفتیان کرام اپنے فتاویٰ میں اس چیز کا لحاظ رکھیں کہ کوئی ایسا حکم صادر نہ ہو جائے جو اسلام کی اس انفرادیت کے شایان شان نہ ہو۔ اس سلسلہ میں سب سے اچھا نمونہ عمل رسول اسلام اور ان کے مقرب افراد کی خانگی زندگی ہے جس میں باہمی احترام اور عزت نفس دونوں موجود ہیں۔ ایسے میں ہمارے مفتیان کو ادھر ادھر ہاتھ پیر مارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter