پروفیسر ظفر کی غیرطبعی موت کا امکان مسترد


ایم کیو ایم

پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش ان کی گاڑی کی پچھلی نشست سے ملی تھی

متحدہ قومی موومنٹ لندن کے ڈپٹی کنوینر پروفیسر حسن ظفر عارف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کردی گئی ہے جس میں ان کی غیرطبعی موت کے امکانات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری سے تقریباً 10 روز قبل پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش ان کی گاڑی کی پچھلی نشست سے ملی تھی اور اسے پوسٹ مارٹم کے لیے جناح ہسپتال منتقل گیا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق کیمیائی تجزیے کے لیے ان کی آنتوں، گردے اور خون کے نمونے حاصل کیے گئے تھے، جبکہ ان کے کپڑوں کا بھی تجزیہ کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق نمونے میں کسی نوعیت کا زہر، پارہ یا کوئی دھات نہیں ملی۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی میں طبعی موت

ایم کیو ایم لندن کے ڈپٹی کنوینر کی لاش کراچی سے برآمد

’ایم کیو ایم وہی جس کے قائد الطاف حسین ہیں‘

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد جب ایم کیو ایم لندن اور پاکستان میں تقسیم ہوئی تو ان دنوں کراچی سے پروفیسر حسن نے ایم کیو ایم لندن میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد انھیں گرفتار کیا گیا اور وہ کئی ماہ قید میں رہے۔

متحدہ قومی موومنٹ لندن کی تحلیل شدہ رابطہ کمیٹی کے کنوینر ندیم نصرت نے الزام عائد کیا تھا کہ پروفیسر حسن ظفر عارف کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔

پروفیسر حسن ظفر عارف کی بیٹی کیا کہتی ہیں؟

پروفیسر حسن عارف کی صاحبزادی شہرزاد ظفر عارف نے والد کی موت کو طبعی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’تمام شہادتوں کی روشنی میں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دل کا دورہ تھا جبکہ میڈیا ان کی موت کو ایک بے رحمانہ قتل کے طور پر پیش کر رہا ہے اور کچھ لوگ ان کی موت کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔

انھوں نے کہا تھا ’ہماری فیملی نے موقعے پر پہنچتے ہی ان کے جسم کا تفصیلی معائنہ کیا تھا اور ہمیں پولیس نے وہ تصاویر دکھائی تھیں جو ان کے بارے میں علم ہوتے ہی کھینچی گئی تھیں۔ ان کے جسم پر ایک نشان بھی نہیں تھا اور ایسی کوئی علامت نہیں تھی کہ ان پر تشدد کیا گیا ہو یا موت غیر فطری ہو‘۔

پروفیسر حسن ظفر عارف کون تھے؟

یاد رہے کہ پروفیسر حسن ظفر عارف ترقی پسند استاد اور سماجی کارکن تھے۔ وہ زمانہ طالب علمی میں نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن میں رہے، جامعہ کراچی میں استاد تعینات ہوئے جس کے بعد برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کیا۔

جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں انہیں ملازمت سے برطرف کیا گیا، جس کے بعد وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور اس کی طلبہ تنظیم پی ایس ایف کو فعال کرنے میں کردار ادا کیا، لیکن پھر بینظیر بھٹو کے فوجی حکومت سے رابطے پر خفا ہوکر پارٹی چھوڑ دی۔

پروفیسر حسن ظفر عارف مرتضیٰ بھٹو کی پیپلز پارٹی شہید بھٹو میں شامل ہوئے لیکن مرتضیٰ بھٹو کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد راہیں جدا کرلیں جس کے بعد کچھ عرصہ مسلم لیگ ن میں شامل رہے لیکن وہاں بھی ان کا قیام مختصر رہا اور پھر ایک طویل عرصے کی خاموشی کے بعد انہوں نے ایم کیو ایم لندن میں شمولیت اختیار کی تھی۔

پروفیسر حسن ظفر عارف جامعہ کراچی کے اساتذہ کی تنظیم کے بھی روح رواں رہے۔ پیر کو ان کی یاد میں تعزیاتی کانفرنس بھی معنقد کی گئی، جس کے بعد ان کے ایک شاگرد اور صحافی فواد حسن کو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے حراست میں لے لیا تھا جنھیں اساتذہ کے احتجاج اور وائس چانسلر کی مداخلت پر رہا کردیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp