کمہارن کا خوبصورت گھڑا


بہت پرانی بات ہے ایک قصبے میں ایک کمہارن رہتی تھی۔ جو پانی رکھنے کے لئے گھڑے بنایا کرتی تھی۔ اس کے گھڑے کام کے مگر سادہ ہوتے تھے۔ مگر لوگ خریدتے کم تھے بلکہ زیادہ تر کسی نہ کسی کا ہاتھ لگ کر وہ گھڑے ٹوٹ جایا کرتے تھے۔ ایک دن کسی نے کہا کہ اتنے بھدے اور بد صورت گھڑے کون لے گا؟ تم اگر ان گھڑوں کو رنگین کردو اور مزید نازک بناؤ تو تمہارے گھڑے ہاتھوں ہاتھ بکیں گے۔ کمہارن نے ایک بہت نازک اور خوبصورت گھڑا بنایا۔ رنگین نقش و نگار سے مزین کیا۔ کیونکہ بازار میں نازک اور رنگین گھڑے کی ہی مانگ تھی۔

اس نے وہ گھڑا لا کر اپنی دکان کے سامنے سجا دیا کہ عوام دیکھیں اور اس کے ہنر کی داد دیں۔ ہر آنے جانے والا اس گھڑے کو چھو چھو کر دیکھتا۔ شام تک ناصرف گھڑے پہ گندے گندے ہاتھوں سے داغ پڑ گئے بلکہ اس کی آنکھوں کے سامنے کوئی لات مار کے گھڑا توڑبھی گیا۔ کمہارن بڑی پریشان ہوئی۔ جب بازار کے دوسرے دکان داروں سے شکایت کی کہ اس شرارتی شخص کو کسی نے کو روکا کیوں نہیں، اب قصور وار کو پکڑا جائے اور سزا دی جائےتو انہوں نے یونہی شریر شخص کو ہلکے پھلکے طعنے دیے اور پھر کمہارن کو ہی قصور وار ٹہرایا، کہ جب اسے پتا تھا کہ گھڑا اتنا خوبصورت اور نازک ہے تو بیچ بازار میں سجانا بے وقوفی تھی۔ کمہارن کو بات سمجھ آگئی۔

اب کی بار اس نے دوبارہ بڑی محنت کر کے ایک اور گھڑا بنایا۔ اس سے بھی زیادہ خوبصورت اور نازک۔ اور گھڑا باہر سجانے کی بجائے دکان کے اندر اپنے سامنے رکھ لیا۔ اب اس نے خیال رکھا کہ وہ شریر شخص دکان میں نہ آئے مگر اب بھی گاہک آکر اسے چھو چھو کر دیکھ رہے تھے۔ شام تک وہ دوبارہ اتنا میلا ہوگیا کہ کسی نے بھی اسے خریدنے سے انکار کردیا۔ رات سے پہلے دوبارہ کسی دوسرے شریر نے کمہارن کی نظر بچا کے گھڑے کو توڑ دیا۔ اب کی بار دوبارہ سب نے شریر شخص کو چند طعنے دے کر کمہارن کو ہی قصور وار ٹہرایا کہ جب سب کے سامنے رکھا ہوگا تو ہرگاہک اسے ہاتھ تو لگائے گا اور اس سےگھڑا گندہ بھی ہوگا۔ کسی سے ٹوٹ بھی سکتا ہے لہٰذا یہ صرف اور صرف کمہارن کی غلطی ہے۔

تیسرے دن کمہارن نے ایک اور خوبصورت گھڑا بنایا۔ اور اب کے ایک شیشے کی الماری میں رکھ دیا تاکہ لوگوں کو نظر تو آئے مگر نہ کوئی اسے چھو سکے نہ توڑ سکے۔ لوگ آتے رہے گھڑا دیکھتے رہے۔ کمہارن اس لیے بھی مطمئین تھی کہ وہ دونوں شریر کسی اور دکان میں چوری کرتے پکڑے گئے تھے اور بازار والوں نے فورا قاضی صاحب کے سامنے حاضر کر کے دونوں کو قید کروا دیا تھا۔ آج تو گاہک اسے، ایسے ہی کئی گھڑے بنانے کا بھی کہہ گئے۔ رات ہونے تک کمہارن بہت خوش تھی کہ اب کی بار اس کا طریقہ کامیاب رہا۔ مگر اگلی صبح جب وہ سو کر اٹھی تو دیکھا کہ الماری کا شیشہ بھی ٹوٹا ہوا تھا اور کوئی گھڑا پھر توڑ گیا تھا۔ کمہارن نے سب بازار والوں کو بلا کر ٹوٹا گھڑا دکھایا اور ماجرا کہہ سنایا۔ مگر بازار والوں نے پھر اسی کو قصور وار ٹہرایا اور کہا کہ جب گاہک اتنا خوبصورت گھڑا دیکھیں گے تو یقینا کسی کا تو دل مچلے گا کہ وہ گھڑا ہاتھ میں لے کے دیکھے۔ اور غلطی سے گر کر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔

اس رات کمہارن نے بڑی محنت سے ایک اور خوبصورت رنگین اور نازک گھڑا بنایا اور اب کے لکڑی کے مضبوط پٹ والی الماری میں تالا لگا کر رکھ دیا۔ لوگ آتے گھڑے کا پوچھتے تو کمہارن بتا دیتی کہ الماری میں رکھا ہے مگر دکھاتی نہیں۔ نتیجتا کسی ایک نے بھی اس کا گھڑا نہ خریدا مگر اگلی صبح دیکھا تو نہ جانے کس بد بخت نے دوبارہ تالا توڑ کے گھڑا نکال کےتوڑ دیا تھا۔ بازار والوں نے اب کی بار بھی کمہارن کو ہی قصور وار ٹہرایا کہ تم گھڑا دکھاؤ گی نہیں اور لوگوں کو پتا بھی ہے کہ الماری میں ایک خوبصورت اور نازک گھڑا رکھا ہے تو ہوسکتا ہے کسی کا تجسس اس قدر بڑھ گیا ہو کہ اس نے تالا توڑ کے گھڑا دیکھنا چاہا ہو اور ہاتھ سے گر کے ٹوٹ گیا ہو۔

صاحبو! کمہارن آج بھی گھڑے بنا بنا کر کبھی سامنے رکھتی ہے کبھی چھپا کر، کبھی خوبصورت اور نازک، کبھی سادہ اور مضبوط، کبھی بہت مہنگا کبھی بالکل سستا اور گھٹیا۔ مگر کوئی نا کوئی اس گھڑے کو توڑ جاتا ہے اور ہر دفعہ توڑنے والا بھی کوئی نیا ہوتا ہے دوسری دکانوں پہ چوریاں کرنے والے پکڑ بھی لیے جاتے ہیں قید بھی ہوجاتے ہیں مگر گھڑا ٹوٹنے پہ بازار والے قصور ہمیشہ کمہارن پہ ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کمہارن کا مسئلہ کبھی حل ہوگا؟

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima