پرنسپل کے مبینہ قاتل طالب علم کا تین روزہ ریمانڈ


فائرنگ

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ایک مقامی عدالت نے نجی کالج کے احاطے میں پرنسپل کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار طالب علم کو تین روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔

تھانہ شب قدر کے انچارج محمد عارف نے بی بی سی کو بتایا کہ بارہویں جماعت کے طالب علم ملزم سید فھیم شاہ کو منگل کو سول جج عطا اللہ خان کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے ملزم کو تین روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چارسدہ میں طالب علم کے ہاتھوں کالج کے پرنسپل کا قتل

پولیس اہلکار کے مطابق واقعے کی تفتیش کےلیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادی گئی ہے جس نے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

ادھر اس واقعے کے بعد شب قدر میں واقع تمام نجی تعلیمی اداروں نے پرنسپل کے قتل پر سوگ منانے کے لیے تین دن تک تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسلامیہ پبلک کالج کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی کالج کی سکیورٹی ہمیشہ سے سخت رہی ہے جہاں ایک چوکیدار دن رات بندوق تھامے مرکزی گیٹ پر موجود رہتے ہیں تاہم انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک طالب علم بیگ میں خود کار ہتھیار بھی لاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ ہر طالب علم کی الگ سے تلاشی لی جائے تاہم کالج انتظامیہ اس قسم کے واقعات کی تدارک کے لیے مختلف اقدامات پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ادھر ملزم سید فھیم شاہ بارہویں جماعت کے طالب علم تھے اور ان کا تعلق شب قدر کے علاقے آٹکی سے بتایا گیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے کالج کے احاطے میں اپنے ہی کالج کے پرنسپل سریر خان کو کلاس کے باہر پستول سے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ کالج کے اساتذہ اور طلباء کا کہنا ہے کہ ملزم چند دن پہلے سکول سے مسلسل غیر حاضر رہے تھے جس پر ان کو پرنسپل کی طرف ڈانٹ ڈپٹ پلائی گئی تاہم بعد میں معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ ملزم نے اسلام آباد میں تحریک لبیک کے زیر انتظام ہونے والے دھرنے میں شرکت کی تھی جس پر پرنسپل کی طرف سے انہیں غیر حاضر لگایا گیا تھا جس پر طالب علم ناراض تھے اور ان کی اس ضمن میں پرنسپل سے تکرار بھی ہوئی تھی۔

کالج کے بعض طلباء کے مطابق پرنسپل اور ملزم کے مابین اکثر اوقات مذہبی موضوعات پر بحث و تکرار ہوتی تھی جبکہ ایک روز ملزم کی طرف سے کسی مذہبی معاملے پر بحث کے دوران ناراضگی کا اظہار بھی کیا گیا تاہم بعد میں پرنسپل کی طرف سے اس کی معافی مانگی گئی جس کے بعد استاد اور شاگرد آپس میں ہنسی مذاق بھی کرتے رہے جس سے ایسا کوئی تاثر نہیں ملا کہ ان کے درمیان کوئی سنجیدہ معاملہ موجود ہے۔ اساتذہ کے مطابق سکول انتظامیہ اس سارے معاملے سے مکمل طورپر لاعلم تھی جبکہ مقتول نے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائیڈ پر ایک وڈیو سامنے آئی ہے جس میں مبینہ قاتل فھیم شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ اللہ کے بارے میں انہیں کوئی ملامت یا ڈر نہیں۔ یہ وڈیو قتل کے فوراً اس وقت بنائی گئی جب سکیورٹی اہلکار ملزم کو قابو کر کے پیچھے سے ان کے ہاتھ باندھ رہے ہیں۔

اس ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار قاتل سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ تم نے چھ کی چھ گولیاں اسی کو ماری ہے جس کے جواب میں اس نے کہا ‘ہاں جی۔’

جب پوچھا گیا کہ اس جرم میں اس کا کوئی ساتھی بھی ان کے ساتھ شریک تھا اس کے جواب میں فہیم شاہ نے کہا ‘نہیں میرا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ میں نے خود کیا ہے اور میں اس جرم کو قبول کرتا ہوں۔’

ادھر معلوم ہوا ہے کہ مقتول پرنسپل سریر خان اپنے علاقے میں ایک مذہبی جماعت سے منسلک رہے ہیں تاہم وہ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ سرگرم نہیں تھے۔ وہ ختم نبوت تحریک کے ایک مقامی رہنما بھی تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ مقتول پرنسپل حافظ قران تھے جبکہ انہوں نے تین مضامین میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کی تھی جن میں اسلامیات، عربی اور اردو شامل ہیں۔ مقتول نے اپنے پیچھے بیوہ اور تین بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔

کالج انتظامیہ کے مطابق کالج میں تقریباً ساڑھے تین سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں تاہم لڑکوں اور لڑکیوں کے سیکشنز الگ الگ حصوں میں واقع ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp