آسام میں ہاتھیوں اور انسانوں کا جنگلات کی ’ملکیت‘ پر جھگڑا


انڈیا ہاتھی

ایشیائی نسل کے ہاتھیوں کی سب سے زیادہ تعداد انڈیا میں پائی جاتی ہے

آسام دنیا بھر میں اپنے چائے کے باغات کے لیے شہرت رکھتا ہے لیکن چائے کے باغات کے مالکوں اور جنگلات کے مالک ہاتھیوں کے مابین تصادم دن بدن بڑھ رہا ہے۔

گذشتہ دس برسوں میں چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد اور ہاتھیوں کے درمیان ہونے والے جھگڑوں میں آٹھ سو افراد مارے جا چکے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ چائے کے باغات کے مالکان جنگلوں میں آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ چائے کے کاشتکاروں کی تنظیم نے کاشتکاروں کے جنگلات میں گھسنے کی سختی سے تردید کی ہے۔

انڈین حکومت کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں چائے کے باغات کو بڑھانے کی کوششوں کی وجہ سے جنگلات کا رقبہ سکڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ہاتھیوں کے لیے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہیں اور وہ انسانی بستیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا آئے روز انسانوں کے ساتھ جھگڑا ہو جاتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2006 سے 2016 کے دوران ہاتھیوں اور انسانوں کے ٹکراؤ میں 800 افراد ہلاک ہو ئے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق اوسطاً ہر روز ایک شخص ہاتھیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ 2014 اور 2015 کے دوران انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے جن میں 54 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مریم کیرکیتا اپنی بیٹی کی تصویر کے ساتھ

مریم کیرکیتا کی بیٹی ببیتا ہاتھیوں کے پاؤں تلے آ کر ہلاک ہو گئی تھی

ہاتھیوں کا بھی جانی نقصان

ہاتھیوں اور انسانوں کے جھگڑے میں صرف انسان ہی نہیں مارے جا رہے ہیں۔

انڈیا کی ماحولیاتی ایجنسی کےمطابق سنہ 2013 اور 2014 میں 72 ہاتھی مارے گئے جبکہ دو ہزار بارہ میں 100 ہاتھی انسانوں کے ساتھ جھگڑے میں مارے گئے۔

ماحولیاتی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق 2001 سے 2014 تک 225 ہاتھی انسانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ انسانوں نے ہاتھیوں کو مارنے کے لیے بندوق، زہر اور بجلی کے کرنٹ کا استعمال کیا ہے۔

ہاتھیوں نے دیوار کو تباہ کر دیا

آسام میں ہاتھیوں نے چائے کے باغ کے گرد بنائی گئی اس دیوار کو تباہ کر دیا ہے

ایشیائی نسل کے ہاتھیوں کی ساٹھ فیصد تعداد انڈیا میں پائی جاتی ہے۔ انڈیا میں ہاتھیوں کی سب سے زیادہ تعداد ریاست کرناٹک میں پائی جاتی ہے جس کے بعد آسام کا نمبر ہے جہاں 5700 ہاتھی موجود ہیں۔

ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آسام میں ہاتھیوں کے لیے جگہ روز بروز تنگ ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہاتھیوں کا رویہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔

مناش شرما

آسام میں ہاتھیوں کےلیے جگہ روز بروز تنگ ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہاتھیوں کا رویہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے: مناش شرما

ماحولیات کے ماہر مناش شرما کہتے ہیں’یہ مقامات جہاں اب چائے کے باغات ہیں، پہلے یہ انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان ایک بفر زون ہوا کرتے تھے۔ ہاتھیوں کے لیے کھانے اور پینے کے لیے بہت وافر تھا لیکن آبادی میں اضافے کی وجہ سے اب چائے کے پودے ان جنگلات میں بھی پائے جاتے ہیں جو ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔

چونکہ ہاتھی چائے کے پتے کو نہیں کھاتے اس لیے وہ آبادیوں کا رخ کر رہے ہیں اور ہم روز کے جھگڑے دیکھ رہے ہیں۔

چائے کے چھوٹے کاشتکار فساد کی جڑ

انڈیا کے ٹی بورڈ نے آسام کے 23 اضلاع میں 26 ہزار چائے کے چھوٹے کاشتکاروں کی رجسٹریشن کی ہے لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اتنی ہی تعداد میں چھوٹے کاشتکار ہیں جو حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

البتہ انڈین ٹی ایسوسی ایشن نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ چائے کے چھوٹے کاشتکار جنگلات میں گھس رہے ہیں جس کی وجہ انسانوں اور ہاتھیوں میں جھگڑے ہو رہے ہیں۔

ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل سندیپ گھوش نے بی بی سی کو بتایا ہم جنگلات کو کاٹ نہیں رہے ہیں اور اگر ہم جنگلات کو کاٹیں گے تو چائے کے باغات بھی متاثر ہوں گے کیونکہ چائے کے باغات کو گرین کور کی ضرورت ہوتی ہے۔

چائے کے باغات

چائے کے باغات میں کام کرنے والی خواتین کو ہاتھیوں کے خطرے کا بخوبی علم ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp