عمران خان صاحب، لوگ تھک چکے، میڈیا تھکنے والا ہے!


اس دن وسی بابا پشاور سے ہو کے آیا، کل ماموں پشاور سے گھر آئے ۔ کہیں سے پشاور میٹرو کے بارے میں اچھی خبر نہیں سامنے آتی۔ یہ واحد منصوبہ تھا جو تحریک انصاف کی حکومت نے انفراسٹرکچر بحالی کی مد میں شروع کیا تھا لیکن اب تک جتنا پشاور کھودا جا چکا ہے ، ناممکن حد تک مشکل ہے کہ وہ گڑھے بھر جائیں اور الیکشن سے پہلے یہ پراجیکٹ مکمل ہو جائے ۔ یہ ابھی کی تازہ ترین صورت حال ہے ۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اپنے صوبے میں کتنا عرصہ قیام کرتی ہے ، یہ ان کے نت نئے ٹی وی پروگراموں، جلسوں اور پریس کانفرنسز سے ہر روز نظر آتا ہے ۔ عمران خان پہلے دن سے ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح الزامات کے پل باندھتے چلے جا رہے ہیں اور جو اصلی پل حکومت کے آخری دنوں میں شروع کیا ہے اسے بھلا کر اسمبلیوں سے نکلنے کی سوچ میں ہیں۔ اور یہ سوچ، زلف خیال یار کی طرح طویل سے طویل ہوئی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ شیخ رشید کا استعفیٰ جو ان کے بقول مریل سا ہو چلا ہے ، وہ بھی خان صاحب کے مشورے پر روکا جا چکا ہے ۔ تحریک انصاف مجموعی طور پہ کہاں سے مشوروں کی آمد کا انتظار کرتی ہے ، یہ ایک پامال موضوع ہے نیز یہ کہ جب تک روحانی معاملات کا اعتراف خود جماعت کے لیٹر ہیڈ سے نہیں ہوتا، اس بات کو طوطے کی مانند دہرایا جانا بے کار ہے ۔ یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ تحریک خود اپنے مرکزی لیڈروں سے مشاورت کرتی ہے اور نت نئے بحران کھڑے کرنا پسند کرتی ہے ۔

بنی گالا میں ہونے والی مرکزی ممبران کی میٹنگ کے بعد پریس کے سامنے اپنے اکثریتی صوبے کو فراموش کرتے ہوئے عمران خان اسی روائتی گردان کو دہراتے نظر آئے جس پر جماعت کی فین فالوونگ ہمیشہ سے فدا ہے ۔ چند بیانات پر بات کرتے ہیں۔ پہلا بیان غداری کے الزام پر مبنی تھا۔ کہا گیا کہ نواز شریف کے مشکل میں پھنستے ہی سرحد پر بھارتی اشتعال انگیزی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ دوسرا الزام زینب اور نقیب اللہ محسود قتل کیس کے حوالے سے تھا، ان دونوں کی ذمہ دار بھی حکومت ٹھہرائی گئی۔ تیسرا بیان اسمبلیوں سے استعفے دینے کا تھا جس پر طویل عرصہ ہوا‘ غور و فکر جاری ہے ۔ چوتھا الزام تمام اسمبلی ممبران پر تھا کہ وہ سب جرائم پیشہ اور کرپٹ ہیں، اندر سے ملے ہیں نیز عمران خان کے خلاف ہیں۔ پانچواں الزام اہانت مذہب کے حوالے سے تھا، فرمایا گیا کہ یہ معاملہ عوام کو بھولنے نہیں دیں گے ۔ چھٹا الزام نواز شریف کی جانب سے عدلیہ پر حملہ کرنے کا تھا۔ ساتواں الزام ڈائریکٹ امریکہ پر تھا کہ اس نے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیوں کیا، اور انہوں نے سختی سے مذمت کا عندیہ دیا۔ آٹھواں الزام پنجاب حکومت پر کرپشن کا تھا جہاں میاں شہباز شریف کا نام لیتے ہوئے کچھ بے کار الزام تراشی ہوئی نیز بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا میں عوام میاں صاحب کو انڈے ماریں گے اگر انہوں نے وہاں کی پولیس کو برا کہا۔

پہلا معاملہ غداری کا الزام، سنجیدہ ترین قانونی صورت حال ہے ۔ صرف اس الزام پہ ہی اگر نواز لیگ ان کے خلاف ذاتی توہین کا مقدمہ درج کرا دے تو وہ ایک مرتبہ پھر برے طریقے سے چڑ جائیں گے ۔ عدالت کے چکر لگانا انہیں ناگوار گزرتا ہے جس کا اظہار وہ چند دن پہلے فرما چکے ہیں۔ دوسرا الزام زینب اور نقیب اللہ قتل کیس تھا، زینب کیس کا مجرم پکڑا گیا، اس سے خود پوچھا جا سکتا ہے کہ ہاں بھئی حکومت کی غفلت اس میں کس قدر شامل تھی اور کس مرحلے پر خدا معاف کرے اسے صوبائی حکومت کا تعاون درکار ہوا؟ یاد رہے کہ مشال خان اور مردان کی بیٹی کے مجرم ہنوز آزاد ہیں۔

اسمبلیوں سے استعفے کا جہاں تک معاملہ ہے تو الیکشن کے بعد پہلے دن سے آج تک انہیں رہ رہ کر یہ خیال آتا رہا لیکن عوام کے پیسوں سے وصول کردہ تنخواہ اور دیگر مراعات کے سامنے تھک ہار کے واپس چلا جاتا تھا۔ فی الوقت شاید جذباتی ہو کر شیخ رشید کی اطاعت میں یہ بیان جاری کیا گیا اور جب گرمی گفتار ختم ہوئی تو احساس ہوا ہو گا کہ ہوا کیا ہے، تو وہ پروگرام پوسٹ پون چل رہا ہے ۔ چوتھا روائتی الزام الف سے یے تک سارے اسمبلی ممبران پر تھا، جو ان کے ساتھ ہے وہ باسٹھ تریسٹھ ہے اور جو ان کے ساتھ نہیں وہ کرپٹ بھی ہے ، وہ جرائم پیشہ بھی ہے ، وہ ان کے خلاف سازش بھی کرتا ہے اور وہ سب آپس میں اکٹھے بھی ہیں۔ یہ ایک قسم کا سیاسی فوبیا نظر آتا ہے جو قائد تحریک کو الیکشن کمشن، اسمبلیوں اور تمام منتخب نمائندوں کی موجودگی سے ہوتا ہے ، اس کا مناسب بندوبست سوائے پنجاب میں انصاف حکومت بنانے کے ، کچھ اور نظر نہیں آتا۔

چھٹا الزام اہانت اور آئین میں تبدیلی کا تھا۔ عمران خان شاید اس بات سے لاعلم ہیں کہ اگر وہ بہت مشکل سے حل ہونے والے اس بحران کو دوبارہ اٹھانا چاہتے ہیں تو وہ دانستہ یا نادانستہ طور پہ مذہبی سیاست کرتے پائے جائیں گے جو غیر جمہوری پریشر گروپس کا روائتی طریقہ رہی ہے اور وہ دو ہزار افراد کے اس دھرنے کو مکمل طور پہ سپورٹ کر رہے ہوں گے جسے ہر فورم پر تنقید کا سامنا رہا تھا۔ نیز جو آئندہ دنوں میں بھی جمہوریت مخالف رجحان سازی کا نمائندہ سمجھا جائے گا۔

چھٹا الزام یہ تھا کہ نواز شریف عدلیہ کے خلاف بات کرتے ہیں۔ یہ کچھ شکایت لگانے کے سے انداز میں پہلے بھی کئی بار وہ دہرا چکے ہیں۔ خود دھرنوں کے دوران کتنی جگہ پر وہ حملہ آور ہوئے ، اس بات کو شاید دہرانا مناسب نہ ہو۔ ساتواں الزام اس ٹرمپ حکومت پر تھا جس سے ملاقات کی کڑوی گولی نگلنے پر محترم عمران خان ابھی چند دن پیشتر آمادگی ظاہر کر رہے تھے، شرط جس کی یہ تھی کہ اگر وزیر اعظم بن سکا تو مجبور ہوں گا کہ ایسا کروں۔ سوال یہ ہے کہ غیر متوقع وزیر اعظم کا مذمتی بیان سننے کے لیے ٹرمپ ہمارے ٹی وی چینل لگائے گا یا اپنی کابینہ کو مجبور کرے گا کہ ہمیں بتاؤ عمران خان ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ سارے نکات عوام کے جذبات بھڑکانے کے علاوہ عقلی سطح پر کوئی وقعت رکھتے ہیں؟ آٹھواں الزام پھر وہی کرپشن کا تھا جو سارے مرثیے میں ٹیپ کا بند ہوتا ہے۔ جس دن عمران خان سیاست میں آئے اس دن سے آج تک ان کا ہر مخالف کرپٹ قرار پایا اور ہر دوست دودھ کا دھلا ثابت ہوتا رہا‘ چاہے عدالت اسے نااہل قرار دے اور تحریک انصاف اس کا ٹکٹ اس کے بیٹے کو آئندہ انتخاب میں دینے کا بندوبست کرتی پھرے ۔

اس ساری الزام تراشی کو ایک طرف رکھتے ہیں، یہ روز کا معاملہ ہے ۔ جتنا وقت میڈیا عمران خان کو دے چکا ہے ، کل ملا کے جتنے گھنٹے ان کی تقریروں کے لیے آج تک وقف ہوئے ہیں، جتنے مباحثے ان کی سیاست کے بارے میں ہر روز ہوتے ہیں، جتنے کالم ان کے بارے میں لکھے جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس سب میں ان کی زیر نگیں سلطنت کا ذکر کتنا ہوتا ہے ؟ خیبر پختونخوا نے اس ٹرم میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا، انہیں حکمرانی میں لے کر آیا، یہ مظلوم صوبہ اور اس کے عوام ان چار برس اور کچھ مہینوں میں کیا تبدیلی حاصل کر پائے ؟ پنجاب میں کرپشن، کراچی میں غنڈہ گردی، فاٹا کے انضمام اور دنیا جہان کے دوسرے موضوعات پر بات کرنے والے راہنما خود اپنے صوبے میں ہونے والے فلاحی اقدامات پر کوئی وائٹ پیپر کیوں جاری نہیں کرتے ؟ مسلم لیگ نواز کی جانب سے ابھی کل پرسوں ایک بیان آیا تھا کہ اگر اگلا الیکشن جیت گئے تو فلاں شہر کو لاہور جیسا بنا دیں گے ، عمران خان کے پاس ایسا بیان دینے کے لیے کوئی آپشن ہے ؟ اگر نہیں ہے تو کوئی واضح ترقیاتی منشور؟ اگر نہیں ہے تو کوئی فلاحی پروگرام کا ہوم ورک؟ اگر کچھ بھی نہیں ہے تو میڈیا پر اتنا وقت دینے کی بجائے تحریک اور قائدین کو ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دینی چاہئے، کوئی مثال کریڈٹ پر ہو تو دوسروں کو چیلنج دینے میں مزہ آتا ہے ، ورنہ لوگ اب تھک چکے ہیں، جلد ہی میڈیا بھی تھک جائے گا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain