بشارت عباسی شہید چوک پر پتھر کا گھوڑا


راولپنڈی اور اسلام آباد کی درجنوں سڑکوں پر میری مجبوریوں، بےچارگیوں، مایوسیوں کے ساتھ ساتھ میری ہمت، عزم، ضد اور جدوجہد کی نشانیاں ہیں۔ غربت کو مقدر سمجھنے کے تشریحاتی معاملہ کو اپنے پاؤں نیچے کچل کر آگے بڑھنے کی جان مارتے ہوئے غریب گھروں کے ہر بیٹے، اور بیٹی کی طرح، یہ نشانیاں صرف مجھے ہی نظر آتی ہیں کہ بالکل ان کی ہی طرح، یہ صرف میری ذات پر ہی بیتیں۔

یہ دیکھیے، یہ سیدپور روڈ، راولپنڈی پر نیشنل بینک کی گلی ہے۔ اس کے بالکل پیچھے، چشتیہ آباد کا اک پرانا علاقہ ہے، جس کے ایک مرلہ کے اک مکان میں زندگی کاکروچوں اور کیچووں کے درمیان گزاری۔ جاتے کہاں ہیں، اسی سید پور روڈ سے نیشنل بینک سے دائیں جانب مڑ جائیں، اور تھوڑا آگے جا کر اک گھومتی گھامتی تنگ گلی میں تیز تیز چلتے جلدی سے جلدی مری روڈ پہنچنا ہے کہ جہاں سے پاکستان نرسنگ کونسل کو جانے والی اک سرکاری بس کا انتظار کرنا ہے۔ یہ بس اگر چھوٹ گئی تو چئیرپرسن صاحبہ بہت ناراض ہوں گی اور دوسرے کلرک صاحبان کے سامنے کچھ سننا بھی پڑیں گی۔
راولپنڈی سے اسلام آباد لیے چلتا ہوں۔

یہ بلیو ایریا، جناح ایوینیو پر گنزہ سنٹر ہے۔ اس کے تیسرے فلور پر اک راٹھور صاحب کا دفتر ہے جو 1993 کے اکتوبر میں اک رسالہ نکالنے والے تھے۔ جنگ اخبار کے کلاسیفائیڈ سیکشن میں اک اشتہار دیکھ کر وہاں اک نوکری کا بندوبست ہوا۔ جمعرات کے دن انٹرویو ہوا اور سوموار کے دن نوکری پر پہلا دن ہونا تھا۔ نوکری کے پہلے دن دفتر داخل ہوا تو سامنے کرسی پر اک خاتون بیٹھی تھیں، جو کہ میری کرسی ہونا تھی۔ مجھے کھڑے کھڑے نوکری نہ ملنے کا سنایا گیا۔ کچھ احتجاج کیا تو دھکے دے کر اور یہ کہہ کر باہر نکال دیا گیا کہ ”اس کُتے کو باہر نکال دو!“ میں احساسِ ذلت سے رو پڑا۔
ٹھیک ہو گیا جناب، مقدر صاحب!

اب ذرا پرانے اور اصلی والے اسلام آباد، سیکٹر جی سکس فور کے بازار روڈ پر آجائیں۔ وہاں مرحوم ہو جانے والے سراج کوَرڈ مارکیٹ کے سامنے اک سکول ہوا کرتا تھا۔ وہاں تین ماہ کام کرنے کے بعد جب تنخواہ کا تقاضہ کیا تو سکول کی پرنسپل صاحبہ نے بھی ان مرحوم راٹھور صاحب جیسا ہی سلوک کیا۔ میری واحد جیکٹ اس ہاتھا پائی میں پھٹ گئی۔ اک بار پھر میں بےبسی کے عالم میں روتا ہوا، اس سکول سے باہر آن کھڑا ہوا۔
اک بار پھر ٹھیک ہو گیا جناب، مقدر صاحب!

پھر اسی سراج کوَرڈ مارکیٹ کے دوسرے کونے کے سامنے اک ملٹی نیشنل کمپنی کے دفتر میں کمپیوٹر اسسٹنٹ ہوا کرتا تھا، جس کا نام مبشر اکرم تھا۔ اس کے سپروائزر، جناب الطاف حسین کا بہترین مشغلہ اسی مبشر اکرم کو ماں بہن کی گالیاں دینا ہوتا تھا۔ اور مبشر اکرم مبلغ 1800 روپے ماہوار پر یہ گالیاں سنتا تھا، اور اک دن شدید تذلیل کروا کر روتے ہوئے سیڑھیاں اتر رہا تھا تو نزاکت حسین صاحب نے گلے لگایا۔ 1993 کی یہ دوستی ان کے ساتھ آج بھی قائم ہے۔ اس اک گلے لگانے کا مبشر اکرم پر اک ایورسٹ ہے جو وہ ساری عمر ہنسی خوشی اور بہ رضا و رغبت اٹھائے گا۔

زندگی کے اور بھی بہت سارے ان گنت ہیں اور اپنے عزیز دوست، امین صاحب کے بقول، سانپوں کے سروں سے اپنا رزق اٹھاتے اٹھاتے میں اک چھوٹا بھی اور موٹا بھی، مگر کاروباری ہو گیا، تو آج راولپنڈی کے راجہ بازار کسی کام سے جانا ہوا۔ کاریم والوں کی گاڑی منگوائی تو فیصلہ کیا کہ سیل فون استعمال نہیں کرنا، بلکہ اپنی یادوں کے ہمراہ سفر کرنا ہے۔

اسلام آباد کے نائنتھ ایوینیو سے دائیں ہو کر، سید پور روڈ کی رش سے بچتے ہوئے، نیو کٹاریاں پر مزید رش دیکھتے ہوئے بالآخر خیابانِ سرسید کی ڈبل روڈ سے راولپنڈی میں داخل ہوئے۔ یہ سڑک کے دونوں جانب خیابانِ سرسید کے مختلف سیکٹرز ہیں جناب، اور یہ اعوان مارکیٹ کا گول چکر آ گیا۔ ہیں، یہ کیا؟ اس گول چکر پر اک گھڑسوار کا مجسمہ نصب ہے؟ مگر یہ تو بشارت عباسی شہید چوک کہلواتا تھا۔ شہادت کی اک نشانی پر پتھر، بلکہ شاید پلاسٹر آف پیرس سے بنا نفاست سے محروم اک گھوڑا ہے اور اس پر اک سوار ہے۔ جاتے ہوئے تصویر نہ بنا سکا۔ آتے ہوئے دھندلی سی، مگر اک تصویر بنائی، آپ کی نذر ہے!

بشارت عباسی شہید کشمیر میں شہید ہونے والے چند اک بالکل ابتدائی مجاہدین میں سے اک تھے۔ میرا ان کے بھائی واجد عباسی صاحب کے ساتھ تعارف، جنابِ محترم شاہ غلام قادر، جو کہ اک عمدہ کشمیری سیاستدان ہیں، نے کروایا تھا۔ عباسی صاحب کے ساتھ تعلق کچھ عرصہ چلتا رہا، بہت عمدہ اور نفیس انسان تھے اور ان دنوں روزنامہ اوصاف میں ملازمت کرتے تھے۔ باقی کی کہانی پھر کبھی سہی، مگر روایتی گھرانوں والے جانتے ہیں کہ بڑے بھائی کی موت، باپ کی موت کے برابر ہی ہوتی ہے۔ واجد عباسی صاحب نے شدید ترین محنت کر کے اپنے لیے آسانیاں تخلیق کیں، اور ان کے ساتھ سنہ 2002 کے بعد رابطہ ٹوٹ گیا۔

بشارت عباسی شہید کی طرح میں بھی ”شہید“ ہونے والا تھا، اگر میں اپنی نوجوانی کی حماقت میں بطور اک پنجابی کشمیری، جہاد کرنے چل نکلتا تو۔ اُس طرف نہ مرتا تو بعد میں کل کے مجاہد اور آج کے دھشتگرد کی حیثیت سے ”پار“ کر دیا جاتا۔ موت ہی مقدر رہتی۔ گھٹیا درجے کی جستی چادر سے بنا ہوا میرے نام کا بھی اک بورڈ ہوتا جو دیہاتی پنجاب میں کسی سڑک کنارے بہت فخر سے لگایا جاتا، پھر اس کا رنگ و روغن اترتا اور پھر وہ بورڈ کوئی نشئی اتار کر ساٹھ روپے میں بیچ کر اک پڑیا ہیروئین خرید لیتا۔

بہت ہوتا تو میرے بھی نام کا اک مبشر اکرم شہید گول چکرا چوک بنا دیا جاتا، جہاں ایسے ہی پلاسٹر آف پیرس کا بنایا اک بدنما گھوڑا کھڑا ہوتا۔ اگر آرٹسٹ میری طرح کا ”مزاخیا“ ہوتا تو گھوڑے کے نیچے لِید کے چار، چھ، آٹھ یا شاید درجن بھر ”ڈھیلے“ بنا ڈالتا۔ انہی لید کے ڈھیلوں کے نیچے اس چوک کا نام بھی دفن ہو گیا ہوتا۔

میرے مُلک، میرے معاشرے، میرے نوجوانوں اور میرے بچوں کی نسلیں نگل گئی یہ عسکریت پسندی۔ نہ کشمیر ہاتھ آیا، نہ افغانستان۔ ہاتھ جو آئی تو عالمی بدنامی اور میرے بچوں جیسے نوجوانوں کی یہاں سے بھاگ نکلنے کی مسلسل کوششیں۔

سابقہ بشارت عباسی شہید چوک، اعوان مارکیٹ، خیابانِ سرسید کے گول چکر پر کھڑے گھوڑے کے اک مجسمے میں بہت سبق ہیں، میرے دوستو۔ گھوڑا سب کو نظر آتا ہے، بشارت عباسی کا نام اب شاید ہی کسی کو معلوم ہو!
شدت سے بچو۔ تشدد سے بچو۔ وجہ چاہے مذہب ہو یا سیاست۔ اپنے رویے نرم رکھو، گرم نہیں۔ ورنہ کیا معلوم، تمھارے نام کے کسی چوک پر موجود گھوڑے کی لید تلے، تمھارا نام لکھا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).