مولویوں کا نوحہ کون لکھے گا؟


کیا ہم سب ایسے ہی نہیں تھے ؟ آپ کا نہیں معلوم لیکن میں تو ایسا ہی تھا۔
بچپن میں گاؤں کی مسجد میں نماز کے لیے سب سے پہلے پہنچتا۔ سردیوں میں منہ اندھیرے گرم بستر کو چھوڑتا اور یخ ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا۔
کافر میں نے دیکھے نہیں تھے لیکن سنے بہت تھے۔ میرے تخیل نے کافروں کے کچھ ہیولے سے بنائے ہوئے تھے۔
میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگتا کہ اﷲ ان کو ہدایت دے یا مسلمانو ں کو اتنی طاقت دے کہ ان کو نیست و نابود کردیں، کافر مجھے سمجھ نہیں آتے تھے۔
بھلا حق کے راستے کو چھوڑ کر شیطان کا راستہ اپنانا کونسی دانشمندی ہے؟
کیا معلوم میری پیدائش کی تاریخ میں ہیر پھیر ہو جاتا اور میں اس صدی کی پیداوار ہوتا۔
مجھے معلوم ہوتا کہ ناموس رسالت کا مسئلہ آن پڑا ہے تو کیا میں ڈی چوک میں نہ ہوتا۔
کیا یہاں کی عالی شان عمارتیں اور سڑکوں پر گھومتی کاریں اور کاروں میں بیٹھے قیمتی اور فرنگی لباسوں میں ملبوس انسان مجھے غیر نہ لگتے۔
اور کیا میں ڈی چوک کی سردی میں رات کو چپکے سے نہ روتا کہ آخر ناموس رسالت کے لیے میرے امیر اتنی منت سماجت کر رہے ہیں کہ عوام ڈی چوک پہنچے اور کوئی نہیں آرہا۔ کسی کو ناموس رسالت کی فکر نہیں ہے ۔ سب بے حس ہیں یا شاید یہ سب بھی کافر ہیں۔۔غیر ہیں۔
اور پھر غیر آگئے۔ انہوں نے سب کو مارا ۔ مجھے بھی مارا۔ میر ا قصور کیا تھا؟ صرف یہی کہ ناموس رسالت کے لیے آیا تھا۔ کیا یہ ایک مسلمان ملک ہے؟
تصور کیجئے ان بچوں کو جن کے چوبیس گھنٹے مدرسوں میں گزرتے ہیں۔ ابتدا میں کیا خود اعتمادی ہوتی ہے۔
اپنے آپ کو پورے معاشرے میں سب سے بہتر خیال کرتے ہیں کہ دین کا علم ہی اصل علم ہے۔ اور وہ یہ علم حاصل کر رہے ہیں۔
مدرسے کی اعلیٰ جماعتوں تک پہنچتے پہنچتے ذہنی انتشار در آ تا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہر سو ’جاہلیت‘ ان کے اعلیٰ علم کو صحیح مقام نہیں دے رہی۔
باہر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ والے دوست جو مدرسے میں نہیں آئے تھے ، کسی نہ کسی ہنر یا فن کو بروئے کار لاتے ہوئے اچھی تنخواہیں لے رہے ہیں۔

لیکن ان دوستوں کے منہ سے مولبی یا مولوی کی پھبتی سنتے ہیں تو دل میں خنجر سا ہی لگتا ہے۔
کیا ان کو بھی نہیں معلوم کہ میں نے کیا اعلیٰ علم حاصل کیا ہے ۔
منہ زبانی مانتے تو ہیں لیکن معاشرے میں عزت والا مقام دینے کو تیار نہیں۔
میرا سارا علم کسی مدرسے میں تدریسی عہدے یا مسجد کی امامت تک ہی نافع ہو سکتا ہے؟
پھر معلوم ہوتا کہ اس شعبہ میں کامیاب لوگ صرف وہی ہیں جو برے اور منافقانہ طریقوں سے ڈھیر سارا پیسہ بنا لیتے ہیں۔صرف یہی واحد راستہ ہے ۔ ہنر میرے پاس نہیں، نوکریوں کے لیے مطلوبہ تعلیم میرے پاس نہیں۔ معاشرے میں عزت نام کی نہیں۔ رشتہ دار تک پھبتی کستے ہیں کہتے ہیں مولبی ہے کوئی ڈھنگ کی طرح پڑھا ہوتا تو آج باعزت نوکری کرتا۔ والدین رشتہ داروں کے پاس رشتہ لینے جاتے ہیں تو ان کے طنزیہ فقرے سینہ چھیدتے ہیں۔
اور یہ مذاق اڑانے والے کیا جانتے ہیں ، میں نے کتنی محنت کی ہے؟
کیا یہ مدرسے کے نصاب سے معمولی سی واقفیت بھی رکھتے ہیں؟ کیا ان کو پتہ ہے جس کو یہ مولبی کہہ رہے ہیں اس نے کتنی راتیں جاگ کر پڑھا ہے؟
کیا یہ ، علوم عالیہ (تفسیر ، حدیث، فقہ ، اصول فقہ) علوم عقلیہ (منطق ، حکمت، ریاضی ، کلام ) علوم لسانیات (صرف نحو ، بلاغت) سے بنیادی تعارف بھی رکھتے ہیں؟
اب صرف ایک ہی حل ہے۔ اپنے مسلک پر قائم رہوں اور دوسرے مسلکوں کو رگیدو ں تو اس گروہ کا یعنی اپنے مسلک کا حصہ رہ سکتا ہوں۔
اور اسی میں بقا ہے ورنہ یہ معاشرہ مار ڈالے گا۔
ریاست ایک مجموعی دانش کا مظہر ہے یا کوئی معصوم بچہ؟
اس کو نہیں معلوم کہ یہ لاکھوں بچے کل باعزت روزگار کے لیے کیا کریں گے؟
صرف دینی علم سے یہ روزمرہ ضرورتوں کو کیسے پورا کریں گے؟

کیا جمہوریت ووٹوں کی تعداد کے لیے نسلوں کو گروی رکھ دیتی ہے۔ ان ووٹوں کے لیے جو شاطر علماء کو ساتھ ملانے سے حاصل ہوں گے؟
کیا مولوی مریخ پر مولوی بن کر ہمارے معاشرے میں اچانک آ گئے ہیں؟
مولویوں کی شاطر لیڈر شپ اتنی ہی مجرم ہے جیسے غیر مولوی لیڈر شپ، اس کے ساتھ جو مرضی کریں۔۔۔لیکن معاشرے میں عام مولوی سے نفرت کیوں؟ یہ ہماری نفرت کے مستحق ہیں یا ہمدردی کے!
مجھے ہمیشہ مولویوں سے ایک خاص انس رہا ہے۔ یہ اپنے مقصد کے ساتھ ہم سے کہیں زیادہ مخلص ہوتے ہیں۔ دیانت دار ہوتے ہیں۔
وہ مقصد کیا ٹھیک ہے یا غلط ، اس بحث سے قطع نظر یہ مقصد وہی ہے جو آپ کے صرف نظر نے ان کو عطا کیا ہے۔
ان کو رخ دینا ریاست کا کام تھا۔
مولوی بچے دیکھ کر تو میں دکھ سے گم سم ہو جاتا ہوں۔ بے بس!
چند ماہ پہلے ایک مسجد میں جمعہ پڑھنے گیا۔ والد بزرگوار بھی ساتھ تھے۔
نہیں پڑھ سکا ۔ مجھے پر تنقید کیجئے ، مجھے جوتے ماریے ۔۔۔ لیکن نہیں پڑھ سکا!
وہاں مسجد کے ایک کونے میں مدرسے کے معصوم طلبا بیٹھے تھے۔ عمریں چار سے بار ہ تیرہ سال۔
ان میں چار یا پانچ سالہ کچھ بچے تھے۔
گنجے تھے۔ سفید تھے۔ خوبصورت ایسے کہ حسن رشک کرے۔ چہرے پر انتہا درجے کی معصومیت۔
قاعدہ پڑھتے تھے ۔ آگے پیچھے ہلتے تھے۔
ایک بچہ اور بڑا ہی گول مٹول معصوم سا بچہ ، سامنے کی قطار میں بیٹھے ایک بچے کو کاغذ سے بنی ایک گولی مارتا ہے۔
گولی نشانے پر لگتی ہے۔ بچہ گلنار ہوجاتا ہے۔
گلنار کیوں نہ ہوتا۔ شرارت کرنے کے تقریبا نہ ہوتے امکانات میں سے اس نے ایک شرارت کو ممکن بنا لیا تھا۔
میں آبدیدہ تھا۔ میں اس بچے کی اس کی ماں سے دوری پر آبدیدہ تھا۔
یہ فاصلہ نہ ہوتا تو اس کے پاس شرارت کرنے کے ڈھیروں امکانات تھے۔
ماں کے محبت بھرے دیے کھانے اور قطار میں ملتے کھانے میں ’کچھ فرق‘ تو ہے۔
گو ل مٹول بچے کے گال ابھی بھی لال سرخ تھے۔ کن انکھیوں سے اس بچے کو دیکھتا تھا جس کو اس کا نشانہ لگا تھا۔
میں جماعت کے کھڑا ہونے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا۔
میں جمعہ پڑھے بغیر مسجد سے نکل آیا۔
ایک اکیلی سنسان سڑک پر میری آنکھوں میں آنسو تھے اور ذہن میں صرف دو لفظ۔۔
سالے مولبی!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments