اوریا مقبول جان کا نظریہ فحاشی اور جنسی جرائم


ہمارے ملک کے مایہ ناز دانشور ہیں؛ اوریا مقبول جان، جن کا ماننا ہے کہ میڈیا پر دکھائی جانے والی فحاشی ہی پاکستان میں جاری جنسی جرائم کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اوریا صاحب کا فرمان ہے کہ ہمارے نوجوان جب یہ فحاشی دیکھتے ہیں تو وہ انسان سے حیوان بن جاتے ہیں اور پھر نتیجتاً وہ بچوں اور عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔

گرے ایریاز کی موجودگی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے، اوریا مقبول جان نے اپنے تئیں پاکستان کی آبادی کو دو حصّوں میں تقسیم کر رکھا ہے؛ لبرلز اور مذہبی۔ اوریا صاحب پاکستان کی تمام آبادی کو سیاہ اور سفید یعنی لبرل اور مذہبی کی کیٹیگری میں فِٹ کر کے دیکھتے ہیں۔ اِن کا ماننا ہے کہ لبرل طبقہ وہ ہے جو میڈیا پہ دکھائی جانے والی فحاشی بھی دیکھتا ہے، کیو موبائل کے اشتہار میں خاتون کھلاڑی کو بھاگتے ہوئے دیکھنے سے لطف اندوز ہوتا ہے، اشتہارات میں خواتین کو سیکس سمبل کے طور پر پیش کرتا ہے، پاکستان میں سیکیولرزم کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے، مذہب بیزار ہوتا ہے، عورت کی آزادی کی بات کر کے اسلامی اقدار کی روح میں چھُرا گھونپپنے کی کوشش کرتا ہے، شراب پی کر بدچلنی کی روش اختیار کرتا ہے اور ارضِ وطن میں زلزلے لانے کا باعث بنتا ہے۔

اوریا مقبول جان کی نظر میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے زنا بالجبر جیسے واقعات میں ملوث ہونے کے امکانات اس لئیے بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہ روک ٹوک کے بنا آزادانہ طریقے سے زندگی گزارتا ہے اور فحاشی کا دلدادہ ہے ۔ دوسری جانب اوریا مقبول جان کے محدب عدسے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی شخص ایسے خواص کا مالک ہے جو اسے ایک نیک اور پارسا شخص بنانے کی تمام اہلیت رکھتے ہیں مثلاً جب میڈیا پر فحاشی دکھائی جائے تو یہ مردِ مجاہد چینل بدل لیتا ہے (ہمیں تو اس مردِ مجاہد کا اسلامی چینلز کو چھوڑ کر باقی کے چینلز کی نشریات دیکھنے کے محرکات کی ہی سمجھ نہیں آتی مگر خیر نیتّوں کے بھید تو خدا ہی بہتر جانے ہے)۔ یہ وہ شاہین ہے جو اشتہاروں میں خواتین کے کردار کو نمائشی کردار سے زیادہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں، اور اس اشتہاری نمائش کو دراصل عورت کی غلامی سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ عورت چادر اور چار دیواری میں اصل “آزاد” ہے سو اس مجاہد نے اپنے گھر کی خواتین گھر کی چار دیواری میں آزاد چھوڑ رکھی ہیں اور چاہتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کی تمام خواتین چار دیواری کی آزادی میں محصور کی جائیں کیونکہ یہ باہر نکل کر مرد کو بہکانے کا موجب بنتی ہیں

ایسا شخص پاکستان کو ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے شریعت کا پابند بنانا چاہتا ہے جہاں codified  تعزیرات کی جگہ شرعی قوانین کا نفاذ ہو، عورت کے بک بک کرنے پر اس کا منہ تھپڑ کے زور پر بند کرنے کی آزادی ہو، اور ٹی وی پر خواتین پردے میں ظہور پذیر ہوں۔۔۔۔ ایک لحظے کو خیال تو کیجئیے کہ ایسی تعلیمات پر عمل پیرا انسان کردار کی کس قدر بلندیوں پر ہو گا، وہ شراب کو ہاتھ نہ لگاتا ہو گا، عورتوں کے برہنہ، نیم برہنہ و چھپے ہوئے اجسام کو دیکھنے سے اجتناب کرتا ہو گا اور اپنے ظاہر و باطن میں ایک صاف ستھرا و پرہیز گار شخص ہو گا۔۔۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ ارضِ پاک میں دندنانے والے جس جنسی درندے کا کھوج لگایا جاتا ہے، اس کا تعلق اس دوسرے گروہ سے نکلتا ہے کہ جس کو تو کردار کی ان بلندیوں پر ہونا مقصود تھا جن بلندیوں پر اقبال کا شاہین پرواز کرتا ہے۔ مدرسے کا قاری ہو یا خود ساختہ عمران نقشبندی ہو، آخر بچّوں کو دیکھ کر ان کی ہوس کیوں جاگ جاتی ہے؟ بچّوں کے ساتھ ہونے والے جنسی واقعات میں کبھی وہ گروہ ملوث کیوں نہیں ہوتا کہ جو میڈیا پے دکھائی جانے والی فحاشی دیکھتا ہے، شراب پی کر بہکتا ہے، اور پاکستان کو آزاد سیکولر ریاست بنانا چاہتا ہے؟ جنسی جرائم کے پیچھے سے وہ چہرے کیوں برامد ہو رہے ہیں جن کے گھروں میں ٹی وی دیکھنے کی پابندی ہے، عورت و مرد کے آزادانہ اختلاط پر پابندی ہے، آرٹ و تہذیب کی طرف رجحان رکھنے پر پابندی ہے، مخلوط نظام تعلیم پر پابندی ہے، عورت کے چاردیواری سے نکلنے پر پابندی ہے، اپنی فطری خواہشات کو پورا کرنے پر پابندی ہے؟

اوریا مقبول جان صاحب! اپنے نظریے کے گریبان میں جھانکیے اور غور کیجیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو مذہبی نقاب اوڑھنے والے انسان کو درندہ بنا رہی ہیں؟ کیوں مذہبی اداروں سے جُڑے افراد بدترین اخلاقی جرائم میں ملوّث پائے جا رہے ہیں؟ ذرا سوچئیے کہ کہیں ان جرائم کی اصل وجہ آزادی کی بجائے پابندی تو نہیں ہے۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).