کیا ملزم عمران نقشبندی مجرم ثابت ہو سکے گا؟


زینب کیس میں ملزم پکڑا جا چکا ہے مگر قانونی طور پر کیس کا ابھی آغاز ہوا ہے۔ اگر وکیل صفائی تیز طرار ہوا تو میری رائے میں ملزم بری ہو سکتا ہے۔ اگرچہ میں فلسفہ قانون کا طالب علم ہوں، مگر اس کے اطلاق کے بارے میں کم علم ہوں – اس کیس کی قانونی اہمیت سے متعلق میں نے گجرات کے ایک معروف وکیل حماد نجیب صاحب سے رابطہ کیا جو ڈسٹرکٹ کونسل گجرات کے لیگل ایڈوائزر ہیں اور گجرات لاء کالج میں قانون کے استاد ہیں۔ آیئے ان سے کی گئی بات چیت تفصیل سے پڑھتے ہیں-

٭٭٭    ٭٭٭

ذیشان ہاشم : حماد بھائی،  انٹرویو کے لئے وقت نکالنے پر شکریہ۔ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ وکلاء برادری سے واقف ہیں ۔ آپ کے خیال میں ملزم عمران کو وکیل میسر آ جائیں گے؟

حماد نجیب : ذیشان بھائی آپ کا بھی شکریہ –یقیناً وکیل میسر آ جائیں گے – اول تو وہ اپنا وکیل ضرور انگیج کرے گا – اگر نہ کیا تو سرکاری وکیل میسر ہو گا اسے –

ذیشان ہاشم : کیا سرکاری وکیل میں اتنی قابلیت ہوتی ہے کہ وہ یہ کیس قابلیت اور ہوشیاری سے لڑ سکے ؟

حماد نجیب : سرکاری وکیل ایسا وکیل ہوتا ہے جو سرکاری خرچ پر ان ملزمان کا دفاع کرتا ہے جو اپنا وکیل نہیں کر سکتے۔ زیادہ تو سرکاری وکیل نوجوان وکلاء ہوتے ہیں جن کے پاس زیادہ مقدمات نہیں ہوتے۔ وہ کام سیکھنے اور نام بنانے کے لئے برائے نام سرکاری فیس پر سٹیٹ کونسل ہو جاتے ہیں – بعض سرکاری وکیل بہت محنت کرتے ہیں – چونکہ اس کیس کو میڈیا بھی کور کرے گا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ سرکاری وکیل جو بھی ہوا وہ اپنی صلاحیت اور قابلیت منوانے کے لئے خوب کام کرے گا –

ذیشان ہاشم : اگر ملزم اس وقت جرم کا اعتراف کر رہا ہے بعد میں یہ بیان دیتا ہے کہ اس پر پولیس کا پریشر تھا اس لئے اس نے اقرار جرم کر لیا وگرنہ وہ بے گناہ ہے تو کیا اس صورت میں کیس valid رہے گا ؟

حماد نجیب: جہاں تک پولیس کے سامنے یا اس کی موجودگی میں اقرار جرم کا تعلق ہے تو وہ inadmissible ہے یعنی اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عدالت میں اس اقبال جرم کو بطور شہادت پیش ہی نہیں کیا جا سکتا۔

پولیس کے سامنے کیا گیا صرف وہی اقبال جرم عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی نیا ثبوت بھی ملا ہو۔ بہر حال جو بھی صورت ہو یہ کوئی ایسی قابل اعتبار شہادت نہیں ہوتی اور نہ ہی عدالتیں اسے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔

اور اگر اقبال جرم مجسٹریٹ کے سامنے کیا گیا ہے تو اس کی قانونی اہمیت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اپنے آپ میں سزا کو یقینی نہیں بناتا۔ کیونکہ اس مجسٹریٹ کو بعد ازاں بطور گواہ عدالت میں پیش ہو کر وکیل صفائی کی جرح کا سامنا بھی کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر شہادت سے یہ ثابت ہو جائے کہ مجسٹریٹ نے اقبال جرم ریکارڈ کرنے کے دوران سنگین قانونی غلطیاں کر دی ہیں یا ملزم نے اپنی آزاد مرضی سے اقبال جرم نہیں کیا بلکہ خوف ڈر یا لالچ کی وجہ سے کیا ہے تو اس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔

ذیشان ہاشم : اگر ملزم بعد میں جرم سے انکار کر دیتا ہے تو ڈی این اے شہادت کی پاکستانی قانون میں کیا ویلیو ہے ؟

حماد نجیب : ہمارےفوجداری قانون میں چشم دید شہادت کی اہمیت بے حد زیادہ ہے۔ جن مقدمات میں چشم دید شہادت موجود نہیں ہوتی، ان میں سزا کے امکانات تقریبا نہ ہونے کے برابر ہی ہوتے ہیں –

اگرچہ واقعاتی شہادتوں کی بنا پر بھی سزا دی جو سکتی ہے. لیکن اول تو اس کا رجحان بہت کم ہے، دوسرا معیار بھی کڑا ہے۔ واقعاتی شہادتوں پر سزا دینے کے لئے معیار ثبوت یہ ہے کہ ہر ایک کڑی دوسری کڑی کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہو اور جب واقعات کی زنجیر کو ملا کر دیکھا جائے تو اکلوتا نتیجہ یہی نکلتا ہو کہ اسی شخص نے یہ جرم کیا ہے۔ اگر کڑیاں ملانے کے باوجود ان واقعات کی ایک تشریح یہ بھی ممکن ہو کہ جرم اس شخص نے نہیں کیا تو پھر وہی تشریح کی جائے گی جس کا فائدہ ملزم کو ہو۔

لہذا پاکستانی عدالتی تاریخ میں چشم دید گواہوں کی عدم موجودگی میں صرف واقعاتی شہادتوں پر سزا دینے کی نظائر بہت کم ہیں۔

ڈی این اے اور فورینزک شہادتیں اہمیت کی حامل تو ہیں لیکن یہ بھی واقعاتی شہادتیں ہی سمجھی جاتی ہیں۔ ابھی تک ہمارے فوجداری قانون میں انھیں substantive evidence یعنی بنیادی شہادت کا درجہ نہیں دیا گیا۔

ذیشان ہاشم : پاکستانی قانون میں ذہنی مرض کی کیا تعریف ہے؟ جس طرح ملزم عمران کی سرگرمیاں رہیں جیسا کہ ایک نعت خوانی کی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ اسے مجمع کو جوش دلانا بھی آتا تھا اور وہ اپنے حواس قائم رکھ کر اس قتل کے احتجاج میں بھی شامل رہا، اس کے باوجود بھی اگر وہ ذہنی مریض ہے تو پھر کیا پاکستانی جیلوں کے آدھے سے زیادہ قیدی ذہنی مریض سمجھے جائیں؟

حماد نجیب : رہی بات پاگل پن کی تو ہمارے ہاں وکلائے صفائی امر واقعہ کو تسلیم کر کے پاگل پن کا ڈیفینس لینے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ صحت جرم سے مکمل انکار کے ساتھ پاگل پن کی اضافی درخواست بھی کر دی جاتی ہے۔

کیونکہ وکلائے صفائی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر قتل کا اقرار کر کے پاگل پن کا ڈیفینس لیا تو پاگل پن ثابت نہ کر سکنے پر اقبال جرم میں سزا ہو جانی ہے ، لہذا احتیاط کا تقاضہ ہے کہ جرم کا انکار ہی کیا جائے۔

ہمارے ہاں ججوں کا جو عمومی مزاج ہے اس کے مطابق تو اگر ایک دفعہ یہ ثابت ہو گیا کہ ملزم نعتیہ پروگرامز میں شرکت کرتا ہے، نقابت کے فرائض بھی احسن طریقے سے سر انجام دے لیتا ہے تو پھر ڈاکٹر بھلے اس کو پاگل قرار دے دیں، عدالت نہیں مانے گی۔

عین وقوعے کے وقت پاگل پن کو ثابت کرنا بہت مشکل کام ہے اور یہ ثابت کرنا ملزم کے ذمہ ہو گا اس لئے اس سے احتراز برتا جائے گا۔

ذیشان ہاشم : صحیح ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر میڈیا ٹرائل نہ ہوا اور پاکستانی رائج عدالتی طریقہ کار کے مطابق فیصلہ ہوا تو ملزم عمران سزا سے بچ جائے گا؟

حماد نجیب : کافی امکانات ہیں بریت کے – مگر اس طرح کے مقدمات میں عمومی فضا اور میڈیا ٹرائل بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور اکثر اوقات فضا کی وجہ سے بھی سزا دے دی جاتی ہے –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan