محل سراؤں سے بازار تک: تیسری جنس کی بے شناختی اور کسمپرسی


پاکستان کے حالات جتنے بھی تیرہ بخت ہوں، موجودہ قانون کے حوالے سے یہ بات روشنی کی نوید ہے کہ بے نشان، بے شناخت، ہزیمت آلود زندگی بسر کرنے والی تیسری جنس یعنی ہیجڑوں کو قانوناً قبول کر لیا گیا ہے۔

سالہا سال سے رسوائی اور تمسخر کا نشانہ بننے والی اس مظلوم مخلوق کہ جسے پاکستان اور ہندوستان میں ہیجڑے، زنخے، کھسرے یا چھکے جیسے القابات سے پکارا جاتا ہے کی موجودگی کا سروے کیا جائے گا اور دوسرے شہریوں کی طرح ان کے ناموں کا اندراج بھی مردم شماری کے ڈیٹا بیس میں شامل کیا جائے گا۔ اس طرح امید ہے کہ تیسری دنیا کی محدود سوچ رکھنے والے افراد اب تیسری جنس کے افراد کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک رکھنے کی بجائے انہیں بھی خدا کی بنائی ہوئی انسانی مخلوق سمجھ سکیں گے۔ یہ پہلی بار ہے کہ حکومتی سطح پر کسی نے تیسری جنس کے حقوق کے متعلق بھی سوچا۔ ہیجڑہ ایسوسی ایشن کے صدر بابی کے مطابق جسٹس محمد افتخار چودھری کے فیصلے نے ہمیں شناخت دی۔

ہیجڑے کون ہیں؟ یہ وہ افراد ہیں جو مکمل طور پر نہ مرد ہیں نہ عورت، اپنے جسمانی اور روحانی زنانہ و مردانہ ملے جلے یا مخلوط خواص کی بنا پر ایک درمیانی جنس کے افراد گردانے جاتے ہیں اور صدیوں سے انسانی معاشروں میں اپنی قبولیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ان کی جسمانی کمزوری کا سبب جاننے کے لیے ہمیں جینیاتی اور جینیاتی سائنس کی جانب نظر ڈالنی ہو گی۔ ہم میں سے اکثر اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ نئی روح کے مظہر کا عمل عورت اور مرد کے جینیاتی مادوں کے تئیس جوڑوں کے ملاپ کے بعد عمل میں آتا ہے۔ جن میں سے جنس کا تعین کرنے والا تئیسواں جینیاتی مادے کا جوڑا ہوتا ہے جو عورت میں ایکس ایکس(XX)  کروموسوم اور مرد میں ایکس وائی (XY) کروموسوم کہلاتا ہے۔

ملاپ کے وقت اگر ماں کا ایکس مادہ باپ کے ایکس سے ملے تو بچے کی جنس لڑکی ہو گی. اور اگر باپ کے وائی کروموسوم سے جوڑا بنائے تو بچے کی جنس لڑکا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد کی جنس کا عورت کو موردِ الزام قرار دینا۔ سائنسی اور اخلاقی طور پر صریحا غلط ہے۔ کیونکہ ہر صورت اس کاتعین مرد کے کروموسوم پر منحصر ہوتا ہے۔

شکمِ مادر میں بچے کی جسمانی تکمیل کا عمل جسمانی ہارمون کا نتیجہ ہے اگر لڑکا ہے تو مردانہ اور اگر لڑکی ہے تو زنانہ اعضائے تناسل تکمیل پر پہنچتے ہیں۔ تاہم اگر کسی وجہ سے ہارمون کی بے اعتدالی ہو تو اس صورت میں یہ اعضا مکمل طور تکمیل کے مرحلے پر نہیں پہنچ پائے گا۔ بلکہ درمیانی جنس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان میں دونوں خصوصیات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ انگریزی میں ان کے لیئے (Hermophidites) اور اردو میں ہیجڑے کی اصطلاح مستعمل ہے۔ یہ عموما مرد کے اعضا اور نسوانی روح کے جسم میں قید بے بس انسان ہوتے ہیں اور اپنی مخصوص حرکات وسکنات اور حلیہ سے با آسانی پہچانے جا سکتے ہیں۔ اور تمسخر کا نشانہ بنتے ہیں۔ دنیا میں ان ک تناسب ہر ایک لاکھ پر ایک سے تین کا ہے ۔

تیسری جنس کا ذکر ایک صدی قبل (مسیح)کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اس زمانہِ قدیم میں ایسی اولادیں قانونی وراثت کی حقدار نہیں ہوتی تھیں۔ تاہم غیر مساویانہ اس سلوک کے باوجود جنس تعین کی کمزوری کے سبب محلوں اور اونچے ایوانوں میں انہیں معتبر انتظامی امور اور نگہبانی، پیغام رسانی اور گھریلو انتظامات کی ذمہ داری بے خوف و خطر سونپی جاتی تھی۔

تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر کی تاریخ بھی ان کے عروج و زوال کی داستانیں رقم کرتی ہے کہ جب بارہویں صدی کے شہنشاہوں اور سلطانوں کے محلوں میں اس مخصوص طبقہ کی اہم انتطامی امور کے عہدوں کی مراعات حاصل تھیں۔ مثلا جنسی نااہلیت کی بنا پر حرم خانوں کی حفاظت کے لیئے خواجہ سرا کا اہم رتبہ کہ جس کی ذمہ داری محل کی خواتین کی حفاظت تھی۔ محلوں اور درباروں سے وابستگی کی لالچ میں اکثر غریب گھرانے دانستہ اپنی اولاد کو تیسری جنس کے افراد میں تبدیل کر دیتے تھے۔ تاکہ ان کے لڑکوں کو اعلی باعزت مرتبہ مل سکے۔ اور خاندان کی باقی ماندہ زندگی آسانی سے گزر سکے۔

برطانوی راج کے زما نے اور پھر بر صغیر تقسیم کے بعد ہندوستان کا اور اس پاکستان میں ہیجڑہ کمیونٹی کے افراد کو بے عزتی، تنگ دستی و تمسخر کا مسلسل سامنا ہے۔ یہ معاشرتی بے حسی اور تنگ نظری ہے کہ خاندان، حتی کہ والدین بھی اپنی اولاد سے بے رخی برتنے لگتے ہیں۔ پھر اگر گھر میں عزت اور محبت نہ ملے تو چھوٹی عمر سے ہی یہ افراد گھر سے نکل جاتے ہیں اور ان لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو ان جیسے ہی ہوں۔ ہیجڑا بننے کا عمل اس وقت مکمل ہوتا ہے جب اپنی شناخت کی تلاش میں وہ ہیجڑوں کے خاندان سے بندھن استوار کرتے ہیں۔ اور اپنے گرو (استاد) کے چیلے (شاگرد) بن جاتے ہیں۔ گویا یہ سفر ہے مرد سے عورت پن کی جانب جو نربان (اعضائے تناسل سے نجات کے آپریشن) کے بعد ہی مکمل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کیونکہ آٹھ فیصد افراد ہی نربان کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ ایک گرو کے عموما پانچ چیلے ہوتے ہیں۔

عموما معاشرہ دو جنسوں کو ہی قبول کرتا ہے۔ مرد یا عورت یعنی وہ جنس جو اولاد کی تخلیق کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ہندوستان کے ہندو معاشرے میں تیسری جنس کی قبولیت اور عزت کا تناسب مسلمان پاکستانی معاشرہ کے مقابلے میں بہتر ہے۔ اس کی اہم وجہ غالبا یہ ہے کہ ہیجڑے ہندو دیوی باہمچاریہ ماٹا اور شیوا کے پجاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال اپریل اور مئی کے مہینوں میں تامل ناڈو میں اٹھارہ روزہ مذہبی میلہ ہوتا ہے۔ اور مندر میں مہا بھارت کی وہ دیو مالائی داستان دھرائی جاتی ہے جس میں کرشنا اور اروان کی شادی ہوئی۔ (کرشنا وہ بھگوان ہے کہ جس نے عورت کا روپ دھارا تھاٰ)

روزگار کا ذریعہ: بالعموم عزتِ نفس کی پامالی تیسری جنس کے افراد میں احساسِ کمتری کا زہر بھر دیتی ہے۔ پڑھے لکھے، روشن خیال اور بارسوخ گھرانوں میں پیدا ہونے والے افراد اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔ تاکہ وہ معاشی طور پر خود مختار ہو جائیں۔ غریب گھر کے بچوں کو معاشی تنگ دستی اور کسمپرسی مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنی گزر اوقات بھیک مانگ کر ، اپنا تمسخر اڑوا کر، تالیاں بجا کر اور انتہائی صورت میں طوائف بن کر ہی کر سکیں۔

بازاروں، سڑکوں، پارکوں اور دوسرے تفریحی مقامات پر تیسری جنس کے ان افراد کی کسی سے ملاقات نہیں ہوتی؟

میک اپ سے تھپے چہرے، رنگ برنگے کپڑے زیبِ تن کیئے لوگوں کو جینے کی دعائیں دیتی یہ زندہ درگور قوم معاشرتی، اخلاقی ابتری اور زبوں حالی کی شرمناک مثال ہے۔ ہم سب انہیں دیکھ کر منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ اور بھول جاتے ہیں کہ ہر شخص کے ساتھ اس کا پیٹ لگا ہوا ہے۔ جس کو ہر روز ایندھن درکار ہے۔ لہذا تعلیم اور ہنر کے بغیر یہ افراد اپنی صبح کا آغاز سڑکوں پر بھیک مانگ کر کرتے ہیں۔ تو شام شادی بیاہ، عقیقہ یا ختنہ جیسی تقاریب میں مبارک بادی کے گیت گا کر کمانے میں صرف کرتے ہیں۔ کبھی بے توقیری کی کمائی اس مہنگائی میں پوری نہیں ہوتی تو کمائی کا تیسرا ذریعہ طوائف کا روپ ہے ۔

ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں جہاں پانچ سے دس لاکھ کی تعداد میں ہیجڑے پائے جاتے ہیں وہاں ان افراد کو بتدریج مراعات مل رہی ہیں۔ سب سے اہم تو تعلیمی سہولت ہے مثلا تامل ناڈو میں کالج کے داخلہ فارم کے علاوہ راشن کارڈ میں بھی جنس کا عورت و مرد کے علاوہ تیسرا خانہ بھی رکھا گیا ہے۔ تاہم وہاں اپنے حقوق کے لیے جنگ تیسری جنس نے سیاسی سطح پہ لڑی تھی۔ اس کی مثال 1993 میں پورے ہندوستان کی سطح پر ہیجڑا ایسوسی ایشن کا قیام ہے۔ اسطرح شبنم موسن بطور آزاد امیدوار پہلی ایم ایل اے (MLA) منتخب ہوئیں۔ جنہوں نے 1999 سے لے کر 2003 تک ملکی سطح پر غربت کے خاتمہ، تعلیم اور ملازمتوں کے حصول کے لیئے قابلِ قدر جدوجہد کی۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی تیسری جنس کے افراد کا نمایاں حصہ ہے۔ خصوصا سماجی بہبود کے حوالے سے ایچ آئی وی اور ایڈز کے خلاف سماجی تحریک اور آگہی کا کام۔

بدقسمتی سے پاکستان میں اس سطح کی بیداری کے لیے وقت چاہیے کہ جہاں اکثر پڑھے لکھے افراد بھی ہیجڑوں کو دیکھ کر استفسار کرتے ہیں اور کہتے ہیں، قربِ قیامت کی نشانی ہے۔ ایک وڈیو پہ یہ شرمناک منظر بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جس میں دو مرد حضرات تیسری جنس کے دو افراد کو لاتوں اور گھونسوں سے مار رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اگر تجھے جان سے بھی مار دوں تو کسی کو کچھ نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا کہ ایک کھسرا مر گیا۔ ایک ہیجڑا ختم ہو گیا۔ کاش ہم اس تکلیف کا اندازہ لگا سکیں جو معاشرے کی بے حسی کے ہاتھوں انہیں دی جاتی ہے۔

معاشرے میں اقلیتوں کے ساتھ جو حق تلفی ہے وہ ظلم کی کریہہ شکل ہے۔ تیسری جنس کے افراد ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اور ملکی تعلیم، ملازمتوں اور دوسری سہولیات پر انکا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے افراد کا۔ انکی حق تلفی جو صدیوں سے جاری ہے ہمارے رحم کی نہیں بلکہ فکری گہرائی، ذہنی وسعت اور انقلابی فیصلوں کی منتظر ہے۔ اکثر افراد سے یہ کہتے سنا گیا ہے کہ، ان کی بد دعائیں نہیں بلکہ دعا لو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے رحم اور بد دعا کے کے خوف سے بہتر سلوک روا رکھنے کے تیسری جنس کے افراد کو بھی گوشت پوست کے انسانوں کی طرح سمجھا جائے۔ تاکہ آنے والے وقت میں ان کا مقدر تضحیک، بھیک، طنز، گھونسے، لاتیں نہیں بلکہ عزت نفس، تعلیم، قبولیت اور باعزت روزگار ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).